آئی جی تبادلہ کیس، فواد چوہدری کا بیان، عدالت نے معافی قبول کر لی


اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی تبادلہ کیس کے معاملے پر فواد چوہدری کے متنازعہ بیان پر وفاقی وزیر کی معافی قبول کر لی ہے۔

سپریم کورٹ میں آئی جی اسلام آباد جان محمد کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی اور متاثرہ خاندان کو مقدمے کے آغاز پر ہی طلب کر لیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے اعظم سواتی کو اپنے بنی گالا والے گھر کے دستاویزات بھی ہمراہ لانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم دیکھیں گے کہ انہوں نے پلاٹ کیسے خریدا اور کتنا ٹیکس ادا کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ اپنے بیانات کے ذریعے سپریم کورٹ کی تضحیک کرتے ہیں کیوں نہ انہیں اندر ہی کر دیا جائے۔ اس آئین اور قانون کے تحت ہی سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک وزیر اعظم کو ہٹایا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ٹی وی چینلز سے وزراء کے بیانات کے ویڈیو کلپس بھی طلب کیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ضرورت تھی کہ ایک انسپکٹر جنرل (آئی جی) جو ملک سے باہر تھا اس کا تبادلہ کر دیا گیا جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔

عدالت میں فواد چوہدری کے بھائی ایڈووکیٹ فیصل چوہدری بھی موجود تھے جن کو چیف جسٹس نے اپنے بھائی کو بلانے کی ہدایت کی۔

فیصل چوہدری نے مؤقف اختیار کیا کہ میں اپنے بھائی کو بلالیتا ہوں لیکن بیانات سے غلط تاثر دیا گیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کی کوئی بات نہیں سنیں گے آپ اپنے بھائی کو فوری طور پر بلائیں وہ یہاں آخر اپنے بیان کی وضاحت کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وزیر کیسے کہتا ہے کہ آئی جی فون نہیں سنتا اور وہ فون سننے کا پابند ہے۔ ایسے تو پھر وہ وزیر یہ بھی کہے گا کہ چیف جسٹس بھی فون اٹھانے کے پابند ہیں اور پھر وہ یہ کہے گا کہ ایک مقدممہ زیر التوا ہے اس لئے فون کررہا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ بھینس کا بہانہ کرکے پلاٹ پر قبضے کی بات ہوئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ میں عدالت سے کچھ نہیں چھپاؤں گا جو حقیقت ہے اس سے عدالت کو آگاہ کروں گا۔ آئی جی اسلام اباد کو ہٹانے کے لئے کارروائی کا آغاز یکم ستمبر کو ہو چکا تھا اور تبادلہ جائزہ لینے کے بعد کیا گیا تھا۔ ہم نے وزیر مملکت برائے داخلہ سے آئی جی کی میٹنگز کی تصاویر اور ویڈیو کلپس عدالت میں جمع کرا دیے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو فواد چوہدری کو بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھیں گے پردے کے پیچھے کون ہے۔ فواد چوہدری کو جس بات کا علم نہیں وہ نہ کیا کریں۔

فواد چوہدری عدالت کے طلب کیے جانے پر کمرہ عدالت میں پہنچے اور عدالت سے اپنے بیان پر معافی مانگتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ بیوروکریسی میں مسائل ہیں۔ میں عدلیہ کی تضحیک کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

چیف جسٹس نے فواد چوہدری کی معافی قبول کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت دو نومبر تک ملتوی کر دی جب کہ اعظم سواتی سماعت ملتوی ہونے کے بعد عدالت پہنچے۔

چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا کہ آپ کہاں تھے بڑا شور مچا رہے تھے کہ عدالت جاکر وضاحت کروں گا اور اگر ساری باتیں ٹی وی پر ہی کرنی تھیں تو عدالت میں کدھر آ گئے ہیں ؟

چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو اپنی اور بچوں کی جائیداد کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے تحقیقات کرائیں گے۔

اعظم سواتی نے مؤقف اختیار کیا کہ میں نے تمام افسران سے بات کی تھی لیکن میری شکایت نہیں سنی گئی اور مجھے کہا گیا کہ آئی جی سے بات کریں جب کہ میرے گھر کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دی گئیں۔

چیف جسٹس نے کہ اب آپ تحقیقات مکمل ہونے تک امریکہ نہیں جاسکتے ہیں۔ ہم اس معاملے پر ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائیں گے اور ان تمام پولیس افسران کو بھی بلائیں گے جنہوں نے معاملے کی تفتیش نہیں کی۔

عدالت نے متاثرہ خاندان اور تمام پولیس ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

فواد چوہدری نے سماعت کے بعد عدالت سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ عدالت ہمیں جس طرح کہے گی ہم ویسا ہی کریں گے۔


متعلقہ خبریں