بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا اثاثہ ہیں، زلفی بخاری

اوور سیز پاکستانیوں کو ڈیجیٹل بینکنگ کی سہولت دینے کا فیصلہ

اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے بیرون ملک پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا اثاثہ ہیں لیکن انہیں نظام کا حصہ بننے نہیں دیا جاتا۔

ہم نیوز کے پروگرام ‘بڑی بات’ میں میزبان عادل شاہزیب سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک پاکستانی ملکی ترقی اور معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ملکی معیشت کے حوالے سے ان کا کہنا  تھا کہ اس وقت حکومت پاکستان قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لے رہی ہے کیونکہ ملکی معیشت کی  بحالی اس کی اولین ترجیح ہے۔

زلفی بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کمزور افراد کا ساتھ دیتے ہیں۔ انہوں نے 20 سال ایک مقصد کے لیے جد وجہد کی ہے وہ اب ناکام نہیں ہو سکتے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب سابقہ حکومت کو پتا چلا کہ ان کا  نام ای سی ایل میں نہیں ڈال سکتے تو پھر پہلے اسے بلیک لسٹ میں شامل  کیا گیا اور بعد میں ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں نیب کی نہیں بلکہ اس وقت کی وزارت داخلہ کی غلطی ہے۔

پروگرام میں موجود ماہرمعاشیات عابد سلہری کا کہنا تھا کہ اگرچین پاکستان کو قرض دے دیتا ہے تو پھر حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

منی لانڈرنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت بیرون ملک افراد کو ترسیلات میں آسانی فراہم نہیں کرے گی تو وہ ہنڈی کا طریقہ کار اپنائیں گے۔

معروف صحافی مظہرعباس کا کہنا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں جن افراد کو گرفتار کیا گیا وہ دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ بیرون ملک بھاگنے سے پہلے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں مزید کئی افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔

حکومت کے حوالے سے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حکومت کو غیرضروری تنازعات میں نہیں پڑنا چاہیے اور متنازع بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

امریکی تھنک ٹینک ولسن فاؤنڈیشن کے سربراہ مائیکل کوگل مین نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں سعودی حکام نے واضح بیان نہیں دیا، اب ہر روز ان کے بیانات کے برعکس ثبوت سامنے آ رہے ہیں۔

ترک صدر کی تقریر کے حوالے سے مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ یہ سعودی حکام کے لیے نقصان دہ ہے۔

ان کا کہنا تھا سعودی حکام پر دباؤ تو ہے  لیکن سعودی حکومت اس دباؤ میں آ کر عالمی برادری کے مطالبات نہیں مانے گی۔ اگر سعودی حکام پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا تو ہو سکتا ہے وہ تیل کی قیمتوں پر اثرانداز ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکی حکام کو سعودی عرب سے اپنے تعلقات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور امریکہ صرف ایک حد تک ہی سعودی عرب پر دباؤ ڈال سکتا ہے


متعلقہ خبریں