پاکستان کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ

پاکستان کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ

اسلام آباد: حکومت نے معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اقتصادی ماہرین کے ساتھ بھی مشاورت کی ہے، مشکل سے نکلنے کے لیے ایک سے زیادہ ذرائع استعمال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا پروگرام لانا چاہتے ہیں کہ جس کا کمزور طبقے پر کم سے کم اثر پڑے، ہم مستقل بنیادوں پر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ مشکل معاشی حالات کا پوری قوم کو ادراک ہے،  ابھی مشکلات برداشت کرلیں گے لیکن ملک کو پاؤں پر کھڑا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی بحالی کیلئے ہمارا ہدف صاحب استطاعت لوگ ہیں، اس سلسلے میں دوست ملکوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ سابق حکومتیں نئی حکومت کے لیے معاشی بحران چھوڑ کر گئی ہیں، ہر نئی حکومت کے آنے پر معاشی بدحالی کا تسلسل توڑنا چاہتے ہیں۔

وزارت خزانہ کا اعلامیہ

وزارت خزانہ نے اس حوالے سے جاری اعلامیے میں تصدیق کی ہے کہ حکومت نےآئی ایم ایف کا پروگرام لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب ڈالر ماہانہ ہے جبکہ توانائی کے شعبے کے نقصانات ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہیں، جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں اضافہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے کیا، حکومت آئی ا یم ایف کا پروگرام لے کر بنیادی اصلاحات لائے گی جس کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

وزارت خزانہ کے ذرائع

وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام مالی ضروریات کے علاوہ بین الاقومی اداروں کے سامنے پاکستان کی ساکھ بھی بہتر بنائے گا۔

ذرائع کے مطابق اس حوالے سے باقاعدہ درخواست اس سال کے آخر تک کی جائے گی، آئی ایم ایف اس سلسلے میں آمادگی کا اظہار کر چکا ہے۔ وزیر خزانہ اپنے حالیہ دورہ انڈونیشیا میں آئی ایم ایف حکام کو اعتماد میں لیں گے اور انہیں ملک میں مزید ٹیکسز عائد کرنے اور ٹیکس سسٹم میں بہتری کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو رواں مالی سال کے دوران اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے آٹھ سے نو ارب ڈالر درکار ہیں تاہم حکو مت اس پروگرام کو بیل آوٹ پیکج کا نام نہیں دینا چاہتی۔


متعلقہ خبریں