اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے مطالبات کیے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے، انگوٹھوں کے نشانات کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے اور ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آرٹی ایس) کا غیر جانبدارانہ و آزادانہ فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔
انہوں نے یہ مطالبات سینیٹ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیے۔ 25 جولائی 2018 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ الیکشن میں دھاندلی کے متعلق مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہی ہے۔
سینیٹر رحمان ملک نے سوالات کیے کہ انتخابی نتائج تاخیرکا شکار کیوں ہوئے؟ فارم 45 کم کیوں ہوئے؟ انٹرنیٹ سروس معطل کیوں ہوئی اور4500 پریزائیدنگ افسران کے پاس منسلک فون کیوں نہیں تھا؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سربراہ رحمان ملک نے یاد دلایا کہ آر ٹی ایس کا سرور نادرا میں تھا اور پوری قوم جاننا چاہتی ہے کہ سسٹم بند ہوا یا کرایا گیا۔انہوں نے کہا کہ سیکیرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ رزلٹ کا متبادل نظام ہے۔
سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک نے دعویٰ کیا کہ آر ایم ایس یواین ڈی پی کے اشتراک سے بنایا گیا اورسافٹ ویئر جس کمپنی نے بنایا اس کے چار رکنی بورڈ کا ایک ڈائریکٹر اب وفاقی وزیر ہے۔
سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ آر ایم ایس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ سافٹ وئیر ہیک نہیں ہوگا. انہوں نے کہا کہ سافٹ وئیر کو ہیک ہونے سے بچنے کے متعلق ٹیسٹ جس کمپنی سے کرایا گیا وہ بھارتی کمپنی تھی جس کا ایک دفتر بھارتی شہر حیدر آباد اور دوسرا امریکہ میں ہے۔
سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آرٹی ایس کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو شکایات ہیں توقائمہ کمیٹی کا پرفارمہ فل کریں، پولنگ ایجنٹس سے بیان حلفی لیں جس میں پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے کا وقت بتایا جائے.
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے اظہارخیال کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کرائے جائیں اور الیکشن کمیشن فوری طورپر مستعفی ہو۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دن اور بعد میں دھاندلی ہوئی، الیکشن سے پہلے سیکیورٹی کے خالات خراب کئے گئے اور الیکشن کے دن ریٹرننگ افسران سمیت الیکشن کمیشن کو بے بس کیا گیا۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ فارم 45 پر پریزائیڈنگ افسران کے دستخط نہیں تھے، پشتون لیڈرشپ کو پارلیمنٹ سے دوررکھا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمشنر سوئے ہوئے نہیں تھے بلکہ چھپ گئے تھے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ الیکشن جمہوری اور غیرجمہوری قوتوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ غیرجمہوری طاقتوں نے الیکشن سے نئے اتحاد بنائے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ الیکشن جنرل ضیاالحق اورجنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کو مات دے گیا۔
سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹرمیاں رضا ربانی نے کہا کہ ملکی استحکام کے لئے لازم ہے کہ ہم آئین کی پاسداری کریں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کی اشرافیہ کو باقی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر طے کرنا چاہیے کہ اس ملک میں گورننس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
انتخابی صورتحال کا ذکرکرتے ہوئے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں ماسوائے ایک انتخاب کے جتنے انتخابات ہوئے ان سب پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سال گزر جائیں گے، پھر انتخاب ہونگے اورپھر یہی بحث ہوگی۔
پی پی پی کے سینیٹر میاں رضاربانی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہردس سال بعد جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی اور اس کے لیے اٹھاون ٹو بی کا سہارا لیا گیا۔
سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے دعویٰ کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نئے انداز میں کٹھ پتلیاں ایوان میں بھیج دی گئیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے والے سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ انتخابات میں آر ٹی ایس کے تحت سارا کھیل کھیلا گیا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ جو کچھ ہوا پارلیمنٹ اس کی ذمہ دار ہے کیونکہ ہم لوگوں نے اس معاملے پر کوئی قانون سازی نہیں کی۔
سینیٹر میاں عتیق نے مشورہ دیا کہ مستقبل میں شفاف انتخابات کے انعقاد کےلیے سیاسی جماعتیں سر جوڑیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے الزام عائد کیا کہ 25 جولائی کو رات کے اندھیرے میں جمہوری نظام پر شب خون مارا گیا۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمان نے مطالبہ کیا کہ انتخابی نتائج کا آئینی، سیاسی اور تیکنیکی آڈٹ ہونا چاہیے۔
پی پی پی کی سیاسی حکمت عملی کے متعلق انہوں نے کہا کہ ہم کسی حکومت کو گرانا نہیں چاہتے اورخواہش مند ہیں کہ چوکوں و چوراہوں کے بجائے پارلیمنٹ میں معاملات حل کیے جائیں۔