اسلام آباد:سپریم کورٹ نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کلیم امام کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے حوالے سے پولیس میں مبینہ سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ عدالت نے اس کیس میں سیاسی مداخلت کے ایشو اور مانیکا خاندان کی خاتون سے بدتمیزی کو الگ کر دیا۔
پیر تین ستمبر کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی پنجاب سیاسی مداخلت کے معاملے کی تفتیش کر کے ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرائیں۔
میں تین رکنی بنچ نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملہ پرازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع کی تو خاتون اول بشری عمران خان کے سابق شوہر خاور مانیکا، کرنل طارق، جمیل گجر اور وزیر اعلی پینجاب کے پرسنل اسٹاف افسر عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے شروع میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پی ایس او اور سی ایس ٹو وزیر اعلی پہنچے ہیں۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ آگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے احسن جمیل گجر سے کہا کہ آپ پراپرٹی ٹائیکون ہیں؟ آپ ہی اس رات وزیر اعلی کے پاس تھے؟
احسن جمیل گجر نے جواب دیا جی وہ میں ہی تھا۔ جب آئی جی پنجاب کلیم امام نے اپنا بیان حلفی پڑھ کر سنایا تو چیف جسٹس نے پوچھا آئی جی صاحب جب رات ایک بجے ڈی پی او کا تبادلہ کیا تو آپ کہاں تھے۔ آئی جی کلیم امام نے جواب دیا کہ وہ اس وقت اسلام آباد میں تھے۔
چیف جسٹس نے پوچھا سنا ہے آپ 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، اس لئے آپ نے رات کو ایک بجے تبادلہ کیا؟
عدالتی بینچ کے سربراہ نے آئی جی پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک میٹنگ میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو کہا تھا کہ آزاد ہو کر کام کریں اورحاکم وقت کے محتاج نہ ہوں۔ لگتا ہے یہ بات آپ بھول گئے ہو، حاکم نے ڈی پی او کو بلایا اور اس آفیسر کو آپ نے نہیں روکا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی او نے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کے واقعہ کا کوئی نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا بطور کمانڈر آپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا؟ زبانی ٹرانسفر کے احکامات کیوں دیے تھے؟ آئی جی پنجاب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں۔
جب چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ ہمیں فائل دکھائیں تو آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ میں نے تبادلہ پوسٹ ڈیٹڈ کرنا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پوسٹ ڈیٹڈ فائل ہی دکھا دیں، تو آئی جی پنجاب نے کہا ابھی فائل میرے پاس نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا احسن گجر کون ہے کہاں ہے؟ کھڑے ہو جائیں اور پوچھا کیا وہ بچوں کے گارڈین ہیں؟ احسن گجر نے جوب دیا کہ وہ ان کےان آفیشل گارڈین ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچے پریشر میں تھے اور اس حوالے سے افریقہ سے ایک مشترکہ دوست کا فون آیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ افریقہ سے یاد آیا کرنل کہاں ہیں؟ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔
چیف جسٹس نے احسن گجر سے پوچھا کہ ان کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے؟ احسن نے جواب دیا کہ وہ ایک عام شہری ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت میں کھڑے ہوکر جھوٹ مت بولیں، جس کا دل چاہے پولیس کو بلاکر ذلیل کرتا ہے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا؟ چیف جسٹس نے احسن گجر کو مخاطب کر کے کہا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے۔
سابق ڈی پی او رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ احسن گجر نے کہا ہم نے پیغام بھیجا تھا، آپ نے عمل کیوں نہیں کیا؟ احسن گجر نے مجھے کہا انگریز دور میں اس خاندان کی جائیدادیں ڈپٹی کمشنر دیکھتا تھا۔
ریجنل پولیس آفیسر ساہیوال نے عدالت کو بتاپا کہ وہ رضوان گوندل کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کہا اور کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تیسرے آدمی کی بات کیوں سنی؟ کیوں نہ وزیراعلیٰ پر 62 ون ایف کا اطلاق کریں؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نےاچھی نیت سے پولیس کو بلایا، وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس موقع پر بینچ کے رکن ، جسٹس عمر عطا بندیال نےریمارکس دیے کہ پاکستان قبائلی معاشرہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے خاور مانیکا کو مخاطب کرکے پوچھا کہ آپ حیات ہیں، احسن گجر آپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے ہیں؟ خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجر فیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے، میری بیٹی سے پولیس نے بدتمیزی کی وہ کانپ رہی تھی، میری بیٹی نے مجھے کہا پولیس نے شراب پی رکھی ہے میں نے پولیس کو ڈانٹا تو پولیس نے معافی مانگی۔
خاور مانیکا نے مزید کہا کہ پولیس نے جب ان کے پاؤں پکڑے تو انہوں نے کہا آپ بابا فرید سے معافی مانگیں، میری بیٹی کو بلا کر پوچھ لیں؟،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بچی کے ساتھ جس پولیس اہلکار نے بدتمیزی کی اس کے خلاف ایکشن ہوگا، سمجھ سے بالا تر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی؟
وزیر اعلی کے پی ایس او حیدر نے کہا کہ ڈی پی او پاکپتن اور آر پی او ساہیوال کو وزیراعلی نے چائے پر بلانے کا کہا۔ انہیں ڈی پی او کے تبادلے کا صبح پتہ چلا۔
ایڈیشنل آئی جی سلطان شہزادہ نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب کے کہنے پر ڈی پی او کے ٹرانسفر پر دستخط کیے۔ ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ رات دو بج کر 58 منٹ پر ایک ڈی ایس پی کے ٹرانسفر کا واقعہ موجود ہے، اس پر رضوان گوندل نے کہا کہ پی ایس او نے انہیں کہا وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ڈی پی او کی شکل صبح نہیں دیکھنا چاہتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت میں موجود وزیراعلی کے پی ایس او حیدر سے پوچھا کہ کیا انہوں نے ایسا کہا ؟ پی ایس او نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ایس او کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں اور وزیراعلیٰ کو 62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، دائیں بائیں اور درمیان سے جھوٹ بولا جارہا ہے۔ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب اور بڑے لوگ (نعوذبااللہ) خدا ہیں؟ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کرکے پوچھا جائے؟
چیف جسٹس نے آئی جی سے پوچھا کہ آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کئے؟ انہوں نے کہا کہ عدالت کا مقصد پولیس کو حودمختار اور آزاد بنانا ہیں اور وزیر اعظم نے بھی اس طرح کی بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی کو حکم دیا کہ اس معاملہ کی تحقیقات کرائیں کہ احسن گجر کون ہے، اس کا وزیر اعلیٰ سے کیا تعلق ہے اور وہ وزیر اعلی کے پاس کیسے پہنچ گیا؟
چیف جسٹس نے کرنل طارق سے پوچھا کہ انہوں نے فون کر کے کیوں مداخلت کی؟ اس پر طارق نے جواب دیا کہ وہ اور رضوان گوندل اکٹھے ٹریننگ کرتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کرنل طارق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے حوالے سے ادارے سے تحقیقات کرائیں گے۔ کرنل طارق نے کہا کہ انہوں نے رضوان گوندل سے کہا کسی ڈیرے پر جانے کی ضرورت نہیں، تو چف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا سارے معاملے میں سیاسی مداخلت کو الگ اور مانیکا خاندان کی خاتون سے مس بدتمیزی کے مسئلہ کو الگ کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مانیکا خاندان کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی کے دونوں واقعات کی مکمل تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر مکمل تفتیش کریں اور ایک ہفتہ میں رپورٹ جمع کرائیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے چیف سیکورٹی افسر عمر اور احسن جمیل کی مداخلت کے پہلو پر بھی انکوائری کی جائے، پولیس انکوائری کے وقت ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور آرپی او ساہیوال شارک کمال کے بیانات کو مدنظر رکھے۔
سماعت سے پہلےخاور مانیکا اپنی بیٹی اور احسن جمیل گجر کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچے جہاں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے احسن جمیل گجر نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس پاکستان انصاف کریں گے۔ ابھی تک آپ لوگوں کو تصویر کا ایک رخ معلوم ہوا ہے آج تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آئے گا۔
احسن جمیل گجر نے کہا کہ ہرکہانی کا ایک مصنف ہوتا ہے تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کہانی کے مصنف چیف جسٹس ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چیف جسٹس منصف ہیں مصنف نہیں۔اس کہانی کا مصنف کوئی اور ہے۔ انشاء اللہ انصاف ہوگا۔
خاور مانیکا سے پوچھا گیا کہ وہ مقدمہ کے متعلق کیا کہتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ اچھا نہیں کہ کسی معاملے پر بات کروں۔ آج اپنا بیان ریکارڈ کرانے آیا ہوں، عدالت میں پیش ہوں گا۔
گزشتہ سماعت کے دوران عدالت عظمی نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور خاتون اول کے سابق شوہر خاور مانیکا، جمیل گجر، کرنل طارق اور وزیر اعلیٰ کے پی ایس او کو پیر کے دن عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت آئی جی پنجاب سے جب اس معاملے کے بارے میں پوچھا تھا تو آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ان پر تبادلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں تھا اور تبادلہ محکمانہ کاروئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈیرے پر بلا کر معافی مانگنے کا کیوں کہا گیا؟ رات کو ایک بجے تبادلہ کیا گیا، ہم دیکھتے ہیں کس طرح دباؤ کے تحت تبادلہ ہوتا ہے۔
ڈی پی اور رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا تھا کہ انہوں نے پورا واقعہ آئی جی پنجاب کو واٹس ایپ پر بھیجا، آر پی او کو وزیراعلیٰ پنجاب کے افسر کی طرف سے بتایا گیا کہ میرا تبادلہ کردیا گیا ہے۔
آر پی او نےعدالت کو بتایا کہ ناکہ پر خاور مانیکا نے پولیس کے روکنے کے باوجود گاڑی نہیں روکی، جب پولیس نے گاڑی کا پیچھا کر کے روکا تو خاتون اول کے سابق شوہر نے پولیس کو برا بھلا کہا تھا۔