اسلام آباد: نواز حکومت کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات اور ان کا انداز مستقل بنیادوں پر تحریک انصاف سربراہ عمران خان کے نشانے پر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی خارجہ پالیسی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
گیارہویں عام انتخابات میں بڑی جماعت بن کر سامنے آنی والی تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں افغانستان، بھارت اور چین کے متعلق خصوصی حکمت عملی کا اظہار کیا۔
تحریک انصاف سربراہ کے اعلانات کے برعکس زمینی صورتحال یہ ہے کہ پانی کی بندش، مسئلہ کشمیر سمیت متعدد معاملات ایسے ہیں جہاں عمران خان کو بھارت کے ساتھ کئی محاذوں پر لڑنا ہوگا۔
عالمی سیاست میں بھارت کی پاکستان مخالف مہم اور رائے سازی کی کوششوں (لابنگ) کا مقابلہ کرنا بھی بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ بھی کھلا راز قرار دیا جاتا ہے۔
افغانستان کے ساتھ اعتماد سازی بھی دقت طلب خارجہ امور میں سے ایک ہے۔ مہاجرین کا مسئلہ ہو یا افغان سرحد سے دراندازی، افغانستان میں بڑھتا ہوا بھارتی اثرورسوخ بھی نئی حکومت کے لیے کٹھن آزمائش ثابت ہوسکتا ہے۔
ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتری کی طرف جارہے ہیں، بھارت جیسے روایتی حریف کی موجودگی میں اس فضا کو قائم رکھنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
چین پاکستان کا واحد ہمسایہ ہے جس کے ساتھ تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں، ان تعلقات کو برقرار رکھنا اور مسلسل بہتری کی جانب لے جانا بھی مستقل توجہ کا طالب رہے گا۔
25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل جاری ہے۔ تحریک انصاف مرکز کے ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل ہے جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر صوبہ میں حکومت بنانے پر بھی اتفاق ہو چکا ہے۔