سپریم کورٹ : بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر فوری شروع کرنے کا حکم


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھاشا اورمہمند ڈیموں کی تعمیر جلد ازجلد شروع کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر میں وفاق اور واپڈا سمیت تمام اتھارٹیز کو ذمہ دار قرارد یا ہے اور ہدایت کی ہے کہ تمام ادارے  تعمیرسے متعلق اقدامات اٹھائیں۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ڈیموں کے لیے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں کمیٹی ہوگی جو تعمیرات کو مانیٹر کرے گی۔ کمیٹی کے سربراہ ممبران کا تقرر کرکے عدالت کو بتائیں گے۔

عدالت عظمیٰ نےکالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اندرون ملک و بیرون ملک مقیم شہریوں سے اپیل کی  کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے حصہ ڈالیں، اس مقصد کے لیے رجسٹرار کے نام پر ایک پبلک اکاؤنٹ کھولا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ اکاؤنٹ میں جمع ہونے والا فنڈ کسی اور جگہ استعمال نہیں ہوگا اور ڈیموں کے لیے دیے جانے والے فنڈ پرکوئی انکم ٹیکس عائد نہیں ہوگا اورنہ ہی کوئی ادارہ  سوال کرے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت کے دوران ریمارکس میں پانی کو زندگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ زندگی شہریوں کا بنیادی حق ہے اوراس کا تحفظ سپریم کورٹ کرے گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ کالا باغ ڈیم پر اتفاق نہیں ہوتا ہے تو کوئی اور ڈیم ہی سہی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پانی کی قلت کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان  کوسابق چیئرمین واپڈا  شمس الملک نے بتایا کہ ایک صدی کے دوران دنیا میں 4600 ڈیموں کی تعمیر ہوئی ہے۔ امریکہ نے ساڑھے سات ہزار ڈیم بنائے، چین نے 2000 اور بھارت نے ساڑھے چار ہزار ڈیموں کی تعمیرکی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموں کی تعمیر میں بہت پیچھے ہے اورایک بھی ڈیم نہیں بنایا ہے۔

شمس الملک نے دعویٰ کیا کہ عظیم دریائے سندھ پرکئی ڈیمز بن سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ کالاباغ ڈیم کی پشت پناہی پنجاب کرتا ہے۔

سپریم کورٹ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے لیے پہلے دن سے شمس الملک کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگرکالاباغ ڈیم پر اتفاق نہیں ہوتا ہے توبھاشا اورمنڈا ڈیموں کی تعمیر پر کیا آپ راضی ہوں گے؟

سابق نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا شمس الملک نے بینچ کے روبرو کہا کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ میرے بچے جیسا ہے اورمیں اس کا دفاع کرتا رہوں گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھاشا اور منڈا (مہمند ڈیم ) ڈیموں کے منصوبے بھی میرے ہی بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دونوں ڈیموں کی تعمیر پر راضی ہوں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پرریمارکس میں کہا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ آپ ڈیمز کی تعمیر پر مثبت مؤقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فنڈز اکھٹے کرنے ہیں اورعالمی بینک سمیت دیگر مالیاتی اداروں کی طرف بھی دیکھنا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اس پر استفسارکیا کہ آپ کی خواہش ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق ہو؟

شمس الملک نے کہا کہ کالا باغ  ڈیم بن گیا تو کے پی کو پانی فراہم ہوگا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر استفسارکیا کہ کالا باغ  ڈیم بن گیا تو کے پی کی کتنی زمین سیراب ہوگی؟

شمس الملک نے بتایا کہ اندازے کے مطابق کئی ملین فٹ زمین سیراب ہوگی۔

بینچ کے رکن جسٹس عمرعطا بندیال نے اس پر استفسار کیا کہ کیا کالا باغ  ڈیم بننے سے چار سدہ اورمردان ڈوب جائے گا؟

عدالت کے روبرو شمس الملک نے کہا کہ 1929 میں اٹک، پبی اورنوشہرہ پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ  ڈیم کی مخالفت اے این پی کے لوگوں نے کی۔ اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ اے این پی کے ایک رہنما نے مجھے کہا کہ ڈیم سونا بھی ہے تو وہ خریدار نہیں۔

شمس الملک نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایک بار سندھ میں مگسی صاحب سے ملا اوران کو ڈیم کی افادیت کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ شمس الملک صاحب آپ کی باتیں ٹھیک لیکن پنجاب پر اعتماد نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر میں نے مگسی سے کہا کہ کے پی اگر آپ کے 70 فیصد پانی کی رکھوالی کرسکتا ہے تو بعد میں بھی کرے گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم یہاں اس لیے اکھٹے ہوئے ہیں کہ کالا باغ  ڈیم کی تعمیر سے متعلق بات چیت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کھلی عدالت میں ماہرین، چیئرمین واپڈا اور پلاننگ کمیشن کے حکام کو بلایا ہے اور ڈیم سے متعلق ماہرین سے ملاقاتیں کی ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم کو پاکستان کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ ہمیں عوام کی طرف سے مطلوبہ رقم سے بھی زیادہ مل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ 900 بلین روپے ملنے والے ہیں ابھی ہم چھپا کررکھیں گے، اس بات کی آپ دعا کریں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ہم کسی قسم کا تنازعہ نہیں چاہتے ہر چیز سوچ سمجھ کر کرنی ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے، بہت جلد ان سب کے ثمرات نظرآنے والے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ نے استفسارکیا کہ 2006 سے کسی حکومت نے بھی اس پرکام کیوں نہیں کیا؟

عدالت عظمیٰ کو دوران سماعت ارسا حکام نے بر یفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 138 ملین ایکڑ فٹ پانی ملک میں آتا ہے اورہمارے پاس 13.7 ملین ایکڑ فٹ پانی اسٹوریج کی گنجائش ہے۔

ارسا حکام نے سپریم کورٹ کے سماعت کرنے والے بینچ کو بتایا کہ مزید دو نئے ڈیم بننے سے سات ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش بڑھ جائے گی اور یہ دو ڈیم بننے کے بعد ہردس سال بعد نیا ڈیم بننا چاہیے۔ انہوں نے عدالت کے گوش گزار کیا کہ ہماری ضرورت 25 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ہے۔

عدالت کو ارسا حکام کی  جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ 1976 میں تربیلہ ڈیم مکمل کیا گیا تھا اس کے فوری بعد نیا ڈیم شروع ہونا چاہیے تھا لیکن 1990 میں یہ بات سامنے آئی کہ نیا ڈیم بننا چاہیے۔

سپریم کورٹ کو دی جانے والی بریفنگ میں ارسا حکام نے تسلیم کیا کہ پانی کا مسئلہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ قوم ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے مدد کرنا چاہتی ہے تو کیا قانون ہمیں ڈیموں کے لیے عطیات لینے کی اجازت دیتا ہے؟

عدالت میں موجود سیکریٹری خزانہ نے اس پر بتایا کہ آئین کسی مخصوص کام کے لیے اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دیتا ہے۔

سیکریٹری قانون نے مؤقف اپنایا کہ ملک میں پانی کی قیمت ہونی چاہیے تب ہی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔

سیکریٹری خزانہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس وقت سالانہ 170 روپے فی ایکڑ وصول کیا جاتا ہے جبکہ زرعی ادویات کی قیمتیں 1900 روپے فی ایکڑ پہنچ چکی ہیں۔

وفاقی سیکریٹری خزانہ نے عدالت کے روبرو تجویز پیش کی کہ عدالت صوبوں کو 1500 روپے فی ایکڑ آبیانہ وصول کرنے کا حکم دے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح 70 ارب روپے سالانہ اکھٹے ہوں گے جس سے دس سال بعد نیا ڈیم بنایا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کو سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ ہم پہلے ہی اندرونی و بیرونی قرضوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اورہمارے لیے مزید قرض کا حصول مشکل ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ہم نے ہرمعاملے میں اتنی غفلت برتی ہے، ڈیزل 115 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ فارنرز سے پیسے لے لیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بے چارہ تو آپ کو پیسے دے رہا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان کی زرعی تاریخ میں پہلی مرتبہ چارفیصد پیداوار کم ہوئی ہے۔

سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ہمارے پاس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی مؤثرانتظام نہیں تھا۔ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں زیر زمین پانی سے متعلق ورلڈ رپورٹ بھی موجود ہے۔

سابق چیئرمین واپڈا نے عدالت عظمیٰ کے گوش گزار کیا کہ ورلڈ رپورٹ کے مطابق یہی صورتحال رہی تو زیرزمین پانی کو پورا کرنے کے لیے دو سو سال چاہیئں۔

واپڈا کے سابق چیئرمین ظفر محمود نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے عرض کی کہ میری گزارش ہے کہ پانی سے متعلق اہم فیصلے کیے جائیں۔

دوران سماعت عدالتی معاون مجیب پیرزادہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کے صرف فوائد بیان کیے جارہے ہیں، اس کےکچھ نقصانات ہیں وہ بھی مدنظررکھنے چاہیئں۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ایک علاقے میں ڈیم بنے گا تو دوسرے کا پانی کم ہوگا۔ انہوں نے مثال پیش کی کہ جیسے انڈیا میں ڈیم بنتا ہے تو نقصان پاکستان کو ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ڈیم بنے گا وہاں کی زمین کاشت کاری کے قابل نہیں رہے گی۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے ممتاز قانون دان مجیب پیرزادہ کا عدالت میں کہنا تھا کہ گنا اورچاول کی فصلیں کاشت ہونا بند ہوجائیں گی۔ سیکریٹری خزانہ کے مؤقف پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسان پہلے ہی مالی بوجھ تلے دبا ہوا ہے، یہ آبیانہ کی رقم میں اضافے کی بات کررہے ہیں۔

مجیب پیرزادہ کا مؤقف تھا کہ ایسا ہوگیا تو کسان فاقوں کا شکار ہوجائے گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر ریمارکس دیے کہ لیکن ڈیمز بھی ملک کی ضرورت ہیں وہ ہمیں بنانے ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ ملک میں ڈیم بننے چاہیئں اور اگر عدالت حکم نہیں دے گی تو یہ صرف بحث ہی ہوتی رہے گی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے واضح مؤقف اپنایا کہ عوام ڈیموں کے لیے فیصلہ دے چکی ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت اس پر حکم جاری کرے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کا عدالت کے روبرو کہنا تھا کہ بیوروکریسی کو فوری طور پر حرکت میں لانا چا ہیے اورعدالت حکم دے گی تو اداروں کو عمل درآمد کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کالا باغ ڈیم سے متعلق درخواست خارج کر دی۔

 

 

 

 


متعلقہ خبریں