زینب کے قاتل پر کوئی دباؤ نہیں تھا، سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ قصور میں زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کی جانے والی معصوم  زینب  کے قاتل  پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا جبکہ مقدمے  کے ریکارڈ سے معلوم  ہوتا ہے کہ مجرم کا اعترافی بیان رضاکارانہ ہے۔

یہ بات جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں زینب قتل کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ  نے مقدمے کے تحریری فیصلے میں کہی ہے جو منگل  کے روز جاری کیا گیا، مجرم عمران نے لاہور ہائی کورٹ سے سزائے موت  کے خلاف اپیل دائر کی تھی  جسے سپریم کورٹ نے خارج کر دیا اور انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو برقرار رکھا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مجرم عمران نے دھوکے سے معصوم بچی زینب کو اغوا کرنے کے بعد  بے دردی سے قتل کیا، مجرم نے اپنے اعترافی بیان میں قصور کی دیگر آٹھ  کم سن بچیوں کو بھی زیادتی کے بعد  قتل کرنے کا اعتراف کیا۔

مجرم عمران کے اعتراف کیے جانے کے باوجود تمام عدالتی کارروائیاں پوری کی گئیں اور مجرم کے خلاف گواہوں کے بیانات اور ٹرائل کو مکمل  کیا گیا، مجرم کے اعتراف کے باوجود اس  کی ڈی این اے رپورٹس اور دیگر شواہد سے بھی اعترافی بیان کی تصدیق ہوئی، مقدمے کے  ریکارڈ  سے  بھی واضح ہوتا ہے کہ ملزم کا اعترافی بیان رضاکارانہ ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق مجرم  پر اعترافی بیان  ریکارڈ کرانے کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ نہیں  ڈالا  گیا۔

زینب قتل کیس

پنجاب کے ضلع  قصور سے چار جنوری 2018  کو اغوا کی جانے والی سات سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، اس کی لاش نو جنوری کو کچرا کنڈی سے ملی، واقعے کے بعد ملک بھر میں غم وغصے کی لہردوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جن کے دوران پولیس  فائرنگ سے دو افراد جاں بحق بھی ہوئے،  بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا  از خود نوٹس لے لیا جس سے بچی کے والدین اور عام لوگوں کو انصاف ملنے کی امید پیدا ہوگئی۔

چیف جسٹس کی ہدایات پر 23 جنوری کو پنجاب پولیس نے سر توڑ کوششوں اور سینکڑوں افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد زینب سمیت آٹھ بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کو گرفتارکرلیا، اس پر کوٹ لکھپت جیل میں مقدمہ چلایا گیا جس کے دوران 12 فروری کو اس پر فرد جرم عائد کی گئی۔

عمران کے خلاف جیل میں چار دن تک روزانہ نو سے گیارہ گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں، سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اورچار ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں۔

18 فروری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے زینب قتل کیس کے مرکزی مجرم عمران علی کو چار بار سزائے موت، ایک بار عمرقید اور سات برس قید کی سزا سنائی تھی، عدالت نے مجرم پر 31 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا اور زینب کے لواحقین کو دس لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصر ٹرائل تھا، چالان جمع ہونے کے سات روز میں ٹرائل مکمل کیا گیا۔


متعلقہ خبریں