اسلام آباد: اسٹیٹ بینک نے ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ڈالرمہنگا ہونے کی وجہ طلب و رسد کا فرق ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال کے دوران برآمدات اورترسیلات میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم بیرونی ادائیگیوں کی صورت حال ڈالر کی قدر میں اضافے کا سبب ہے، تجارتی خسارے میں اضافہ روپے کی قدر کو کم کر رہا ہے جبکہ اضافی درآمدات نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق کاروبار کے دوران ڈالر کی بلند ترین سطح 121 روپے رہی جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر 119 روپے 84 پیسے پربند ہوا، اسٹیٹ بینک مالی منڈیوں میں استحکام کو یقینی بنانے اور سٹے بازی کے دباؤ کے خاتمے کے لیے تیار ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں خسارہ 14 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے جو گزشتہ مالی سال سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے تاہم اسٹیٹ بینک کے اقدامات اور قیمت میں ردو بدل سے بیرونی کھاتوں کے عدم توازن کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
پیر کے روز پاکستانی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی اوسط شرح مبادلہ 119 روپے 84 پیسے رہی جبکہ ڈالر کی کم سے کم قیمت 117 اور بلند ترین قیمت 121 روپے 50 پیسے ریکارڈ کی گئی۔
ذرائع کے مطابق چھ ماہ میں ڈالر کی قیمت میں 15 روپے 46 پیسے اضافہ ہوا جسے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا عندیہ قرار دیا جا رہا ہے۔
سات دسمبر 2017 کو ڈالر 105 روپے 54 پیسے کا تھا جبکہ چھ ماہ میں اس کی قیمت میں 15 روپے 46 پیسے کا اضافہ ہوا۔