گذشتہ پانچ سالوں میں2.75 ملین لوگوں نے اچھے روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ دیا۔
امیگریشن کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سارا ٹیلنٹ بیرون ملک چلا گیا، ہجرت کرنے والوں میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی شرح پچاس پچاس فیصد ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں لگ بھگ چار لاکھ کے قریب افراد نے چالیس مختلف شعبہ جات میں روزگار کے لئے پاکستان سے بیرون ملک ہجرت کی۔ ان میں سے بیشتر نے خلیجی ممالک خصوصا سعودی عرب کا رخ کیا۔
اچھے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کو کنسلٹنسی کی خدمات فراہم کرنے والے لاہور کے محسن رفیق کہتے ہیں کہ باہر جانے والوں میں پڑھے لکھے اور غیر تعلیم یافتہ کی تعداد برابر ہے ،،، یہ تاثر غلط ہے کہ سارا ٹیلنٹ ملک چھوڑ گیا۔
ایجوکیشنل امیگریشن کنسلٹنٹ محسن رفیق کے مطابق بیرون ممالک جان کر خوشحال ہونے کے خواہش مند افراد میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کی تعداد پچاس پچاس فیصد ہے ،تاہم سرکاری ملازمین اور بینکنگ سیکٹر کے ملازمین میں بیرون ممالک جاکر خوشحال ہونے کا رجحان کم ہے۔
محسن رفیق کے مطابق پڑھے لکھے لوگ زیادہ تر آسٹریلیا، کینیڈا، یو کے اور امریکہ جانا چاہتے ہیں جبکہ غیر تعلیم یافتہ لوگ زیادہ تر خلیجی ممالک میں جانا چاہتے ہیں
بیرون ممالک جانے والے زیادہ تر لوگوں کا مقصد معاشی آسودگی اور ریاستی کی جانب سے فراہم کردہ تعلیمی اور صحت کی سہولیات کا حصول ہے۔
دوسری جانب طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے سے نوجوان دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں،یہاں نہ ہی سہولیات ہیں نہ ہی ایجوکیشن کے مطابق جاب کے مواقع، اس لئے ہر کوئی بیرون ملک جانے کا سوچتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی شہریوں کے بیرون ممالک جا کر خوشحال ہونے کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہی پہنچتا ہے، خوش حال پاکستانی زر مبادلہ کے ذریعے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔