حکومت کا رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ


وفاقی حکومت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ کر لیا۔

‏وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں دونکاتی ایجنڈے پر تفصیلی غور کیا۔ وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے کابینہ کو مختلف امور پر بریفنگ دی۔

کابینہ نے عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے سرکلر جاری کرنے کے معاملے پر غور کیا۔ کابینہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔

وفاقی کابینہ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فی الفور دستخط کریں تاکہ ملک کو آئینی وسیاسی بحران سے نجات مل سکے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

شہباز حکومت سپریم کورٹ از خود نوٹس کی بدولت قائم ہوئی، فواد چوہدری

انہوں نے یہ مطالبہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے جانے والے خط میں کیا جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ رجسٹرار کے پاس جوڈیشل آرڈر کالعدم قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں، چیف جسٹس بھی جوڈیشل آرڈر کے خلاف کوئی انتظامی آرڈر جاری نہیں کر سکتے، رجسٹرار کا 31 مارچ کا سرکلر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے خط میں کہا کہ آپ کو سینیئرافسر کے طور پر اپنی آئینی ذمہ داری کا ادراک ہونا چاہیے، یہ کیس سوموٹو نمبر 4/2022 آرٹیکل 184 تھری کے ازخود نوٹس کے تحت سنا گیا، سپریم کورٹ اور آپ کے مفاد میں بہتر یہی ہے کہ 31 مارچ کا سرکلر فوری طور پر واپس لیا جائے۔

جسٹس فائز عیسٰی نے مؤقف اختیار کیا کہ سرکلر واپس لے کر ان تمام لوگوں کو مطلع کیا جائے جن کو بھیجا گیا تھا۔

ثاقب نثار نے از خود نوٹس کا بیدریغ استعمال کیا، وزیر قانون


متعلقہ خبریں