عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا، لوگوں کو لاکر کسی ووٹ ڈالنے والے کو روکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد سے قبل جلسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پرسماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اورجسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس نےکہا کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے، پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا۔
عوامی مفاد میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، عوام کا کاروبار زندگی بھی کسی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، سماعت کےدوران وکیل بار کی جانب سے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا گیا اس پرجسٹس مینب اخترنےکہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ آرٹیکل 66 تو پارلیمانی کاروائی کو تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت آسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے،اس کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں، آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے،آرٹیکل پچانوے دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔
جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے پاس آرٹیکل 63اے ریفرنس کے تحت ہارس ٹریڈنگ ختم کرنے کا موقع ہے، فواد چودھری
چیف جسٹس نےسپریم کورٹ بار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپکا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے۔ اس پروکیل سپریم کورٹ بار نےکہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کےلیے صدارتی ریفرنس پرسماعت کےلیے لارجر بینچ بنائیں گے، اس ریفرنس پر تمام سیاسی جماعتوں کے وکیل تیاری کریں، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوالات کیے گئے ہیں، سندھ ہائوس پرحملے کے معاملے پرایڈووکیٹ جنرل سندھ کی بات میں وزن ہے۔
اٹارنی جنرل نےسپریم کورٹ میں کہا ہےکہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جھتہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، اٹارنی جنرل نےکہا کہ سندھ ہاوس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہاوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نےعدالت میں کہا ہےکہ سندھ ہاؤس واقعہ پر شرمندہ ہیں، چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے تاثرات سامنے آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نےکہا کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے ، حساس وقت میں مصلحت کیلئے کیس سن رہے ہیں۔