تحریک عدم اعتماد پر آئین کے مطابق عمل کیا جائے،سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر آئین کے مطابق عمل کیا جائے، سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے۔

عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ بار کی سیاسی کشیدگی کے حوالے سے درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ بار اپنی درخواست میں استدعا پڑھ کر سنائے، درخواست گزار کی استدعا سیاسی تناظر میں ہے اور عدالت نے ملک کے سیاسی تناظر کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون پر عمل ہونا چاہیے جبکہ اخبارات سے معلوم ہوا کہ 63 اے کے حوالے سے حکومت عدالت آ رہی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت بھی معاملے پر سپریم کورٹ آ رہی ہے ؟ سپریم کورٹ بار امن و امان کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے جبکہ ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا بلکہ دائر درخواست کو سن رہے ہیں۔ ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کے برخلاف ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی دوسرا سوال نہیں ہے۔ اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا تاہم عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں اور تشدد کا جواز نہیں پرامن انداز سے احتجاج کا حق ہے۔ آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ بھی موجود ہیں۔ 20 لوگ سندھ ہاؤس احتجاج کرنے آئے تھے اور احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا جبکہ 13 لوگوں کو سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے پر گرفتار کیا جس کا مقدمہ تھانہ سیکرٹریٹ میں درج کر لیا گیا اور آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں بلکہ ہم آئین کی عمل داری کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔ کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے ؟ سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے یہاں پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں۔ اب ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔ امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 63 اے پر ابھی رائے نہیں دینا چاہتی اور آرٹیکل 63 اے پر صدارتی ر یفرنس سے متعلق درخواست کی سماعت کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کی درخواست کا تعلق نہیں ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دونوں معاملات کا آپس میں لنک موجود ہے۔ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر کی ذمہ داریوں کی بات کی گئی جبکہ پارلیمنٹیرین اور سپریم کورٹ بار کا بہت احترام ہے اور سندھ ہاؤس واقعے کے علاوہ کچھ بھی توجہ طلب نہیں ہے۔ سیاسی عمل بہت سے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے اور سندھ ہاؤس واقعے پر اٹارنی جنرل نے کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

عدالت نے حکم دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے وکلا کے ذریعے پیر کو پیش ہوں اور کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی۔ آئین آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد کا عمل جاری رکھا جائے۔

عدالت نے تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائےاسلام ف کو نوٹسزجاری کر دیئے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر قانونی امور کو دیکھا جائے گا۔ آئی جی اسلام آباد سے سندھ ہاؤس پر حملے کی رپورٹ پیر تک طلب کر لی ہے۔ سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق برتاؤ کریں گی جبکہ سندھ ہاؤس کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ فریقین خلاف قانون کوئی اقدام نہ کریں۔

عدالت نے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ کے وکیل موجود ہیں جو دلائل دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو نوٹسز جاری کر دیئے اور آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا کہ وہ پیر تک جواب جمع کرائیں۔ عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔


متعلقہ خبریں