طالبان کیلئے وادی پنچشیر پر کنٹرول حاصل کرنا کتنا مشکل؟

طالبان کیلئے پنچشیر پر کنٹرول حاصل کرنا کتنا مشکل؟

افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 150 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع وادیِ پنچشیر کو طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ کہا جا رہا ہے۔

ہندوکش کی بلند و بالا اور سنگلاخ چوٹیوں میں گھری وادیِ پنجشیر نے گذشتہ چار عشروں کے دوران کئی مرتبہ بیرونی حملہ آوروں کے حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق 80 کی دہائی (1979-1989) میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کر رکھی تھی تو پنجشیر وادی اس وقت بھی مزاحمت کا مرکز تھی اور پنجشیر کے جنگجوؤں نے متعدد مرتبہ سوویت اور افغان فوجوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو ناکام بنایا تھا۔

اور پھر طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996-2001) میں اسی خطے سے طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی اور پورے افغانستان پر قبضہ کر لینے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے باوجود طالبان کبھی بھی پنجشیر وادی پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

گذشتہ دو عشروں سے پنجشیر وادی کو افغانستان کا سب سے محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔

اب جب طالبان نے ایک بار پھر ملک کے طول و عرض پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے، وادی پنجشیر ملک کے 34 صوبوں میں واحد صوبہ ہے جہاں ابھی تک طالبان کا تسلط قائم نہیں ہو سکا ہے۔

پنجشیر اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ عبدالرحمن نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ’ہم ایک بار پھر طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار ہیں۔‘

اُن کے اس پیغام کی افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے نائب صدر امراللہ صالح نے تائید کی ہے۔ امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ ملک کے صدر کی غیر موجودگی میں وہ قانونی طور ملک کے نگران صدر ہیں۔ طالبان نے اشرف غنی کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

امراللہ صالح جو افغانستان کی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، نے لوگوں سے کہا ہے کہ وادی پنجشیر کی مزاحمت میں شریک ہوں۔ امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ ’وہ کبھی طالبان کے ساتھ ایک چھت کے تلے نہیں بیٹھیں گے۔ کبھی بھی نہیں۔‘

امراللہ صالح کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے معروف کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے ہمراہ پنجشیر وادی میں موجود ہیں۔

یاد رہے کہ احمد شاہ مسعود، جنھیں ’پنجشیر کا شیر‘ کہا جاتا ہے، کو 9 ستمبر 2001 سے دو دن پہلے القاعدہ کے دو خودکش حملہ آوروں نے ایک حملے میں ہلاک کیا تھا۔

احمد شاہ مسعود کے 32 سالہ بیٹے احمد مسعود نے قومی مزاحمتی فرنٹ (این آر ایف) کے نام سے ایک طالبان مخالف اتحاد قائم کیا ہے۔

احمد مسعود نے پچھلے ہفتے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے آخری گڑھ پنجشیر کا ہر صورت میں دفاع کریں گے۔

قدرتی قلعہ

این آر ایف کے فارن ریلیشنز کے سربراہ علی نظاری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ امن کے خواہاں ہیں لیکن ہزاروں جنگجو وادی پنجشیر کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مقامی فورسز کے علاوہ افغان فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اُن کے ساتھ موجود ہے۔

طالبان کے خلاف جنگ میں پنجشیر کے اِن محافظوں کو اپنے علاقے کے منفرد جغرافیے کی مدد بھی حاصل ہو گی۔

سنگلاخ چوٹیوں اور گہری کھائیوں میں گھری وادی پنجشیر درحقیقت ایک قدرتی قلعہ ہے جس میں داخل ہونا بذات خود انتہائی مشکل کام ہے، کیونکہ ایک تنگ داخلی راستہ ہے جس کے اطراف بلند و بالا پہاڑ واچ ٹاور کا کام دیتے ہیں۔

وادی پنجشیر تاریخی طور پر سکندر اعظم اور امیر تیمور کی فوجوں کی اہم گزرگاہ رہی ہے۔

پنچشیر کے قدرتی وسائل میں دریا ہے جس پر ہائیڈروالیکٹرک ڈیم ہے۔ وادی میں زمرد کی کانوں کے علاوہ ونڈ فارمز بھی ہیں۔ امریکہ کی مدد سے وادی پنجشیر میں سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ ایک ریڈیو ٹاور بھی نصب کیا گیا ہے جس کی مدد سے کابل سے سگنلز موصول ہو سکتے ہیں۔

لیکن اگر معاشی لحاظ سے دیکھیں تو وادی پنجشیر کا ملکی معیشت میں کوئی بڑا حصہ نہیں ہے۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے صحافی ہارون شفیقی کے مطابق وادی پنجشیر گوریلا جنگ کے لیے بہترین جگہ ہے لیکن اس کی تزویراتی (سٹریٹیجک) اہمیت نہیں ہے۔

’نہ تو یہ کسی بندرگاہ کے قریب ہے اور نہ ہی یہاں کوئی صنعت ہے اور نہ ہی اس کا ملکی خزانے میں کوئی نمایاں حصہ ہے۔‘

وادی پنجشیر کی کل آبادی ڈیڑھ سے دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور پوری آبادی تاجک نژاد ہے۔ پنجشیر کے تمام رہائشی فارسی بولنے والے ہیں۔

مزاحمت کی علامت

کابل سے قریب تین گھنٹے کی مسافت پر صوبہ پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے جانا جاتا ہے۔ سنہ 1996 سے 2001 تک طالبان کے دور میں بھی یہ صوبہ اُن کے کنٹرول میں نہیں رہا تھا۔ وہاں شمالی اتحاد (ناردرن الائنس) نے طالبان کا مقابلہ کیا تھا۔

سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران پنجشیر احمد شاہ مسعود کا گڑھ تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان 31 اگست کے بعد انخلا کرنیوالوں کو محفوظ راستہ دینے کی ضمانت دیں، جی سیون

سوویت یونین کے افغانستان چھوڑ جانے کے بعد بھی افغانستان میں مختلف دھڑوں میں لڑائی کے دوران بھی پنجشیر وادی کی اہمیت تھی۔ احمد شاہ مسعود کی سنہ 2001 میں وفات کے بعد وادی پنجشیر نے مزاحمت کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

نائن الیون کے حملوں سے صرف دو روز پہلے القاعدہ کے خودکش حملہ آوروں نے احمد شاہ مسعود کو ہلاک کر دیا تھا

احمد شاہ مسعود کو افغانستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ صدر حامد کرزئی نے سنہ 2012 میں انھیں قومی ہیرو قرار دیا تھا اور ان کی وفات کا دن یعنی نو ستمبر افغانستان میں ’یوم شہدا‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

سابق افغان حکومت کے نائب صدر امراللہ صالح انھیں اپنا ہیرو اور رہنما مانتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ وہ احمد شاہ مسعود کی وراثت سے غداری نہیں کریں گے۔ ’میں کسی بھی حالت میں طالبان دہشتگردوں کے سامنے نہیں جھکوں گا۔‘

سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت میں پنجشیر وادی احمد شاہ مسعود کا گڑھ تھی

امراللہ صالح کا اپنا تعلق وادی پنجشیر سے ہے اور وہ نوے کی دہائی میں شمالی اتحاد کا حصہ رہے ہیں۔

لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو احمد شاہ مسعود کو جنگی جرائم کا مرتکب گردانتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی سنہ 2005 کی ایک تحقیق کے مطابق احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں فوج جنگی جرائم میں ملوث رہی ہے۔

پنجشیر کی موجودہ مزاحمت کی باگ ڈور جس 32 سالہ شخص کے پاس ہے وہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود ہیں۔

طالبان کی کابل میں آمد کے ایک روز بعد 16 اگست کو سوشل میڈیا پر امراللہ صالح اور احمد مسعود کی ایک تصویر سامنے آئی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں طالبان مخالف اتحاد موجود ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں احمد مسعود نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں کو افغان فوج اور سپیشل فورسز کی حمایت حاصل ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ان کے پاس اسلحے کا ایک ذخیرہ ہے جو انھوں نے ماضی سے اکٹھا کرنا شروع کر رکھا تھا کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ ایک وقت آ سکتا ہے جب اس کی ضرورت پڑے گی۔

احمد مسعود نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے، لیکن احمد مسعود نے دنیا سے اپنی مدد کے لیے کہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’طالبان کے خلاف مجاہدین کی مزاحمت اب شروع ہوئی ہے لیکن ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’اگر طالبان جنگی سرداروں نے ہم پر حملہ کیا تو انھیں یقیناً مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ جنگی فورسز اور ساز و سامان کافی نہیں ہو گا۔‘

’اگر مغرب میں ہمارے دوست ہمیں اسلحہ مہیا کرنے کا کوئی راستہ نہیں ڈھونڈ لیتے تو ہمارے پاس موجود اسلحہ تیزی سے ختم بھی ہو سکتا ہے۔‘


متعلقہ خبریں