طالبان کابل سے صرف 40 کلومیٹر دوری پر، متعدد سفارتخانے بند

طالبان کابل سے چند میل کے فاصلے پر، متعدد سفارتخانے بند

افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کی پیش قدمی جاری ہے اور افغان فوج سے لڑائی میں وہ آہستہ آہستہ دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ کابل کے قریب شہر میدان شار میں دونوں فریقین کی لڑائی جاری ہے جبکہ طالبان نے ملک کے نصف صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ طالبان کابل شہر سے صرف 40 کلومیٹر دور رہ گئے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق  طالبان نے ملک کے دوسرے بڑے اور اہم تجارتی شہر قندھار پر بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے اور اب صوبہ لوگر میں داخل ہو چکے ہیں۔

طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں، جبکہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باعث لاکھوں افراد نے کابل کی جانب نقل مکانی کی ہے اور وہ رات سڑکوں پر گزار رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق طالبان نے اب شمالی افغانستان کے بیشتر حصے پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے اور ملک کے ایک تہائی صوبائی داراحکومتوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کنٹرول سنبھال لیں تو ہمارے سفارتخانے کو نشانہ نہ بنائیں، امریکی کوشش

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک میں گذشتہ ایک ماہ کی لڑائی کے دوران 1000 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

متعدد یورپی ممالک نے بھی افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے ہیں اور غیر ضروری سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے۔

برطانیہ اور امریکہ نے بھی اپنے فوجی کابل بھیجنے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہاں پھسنے اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو بحفاظت نکالنے میں معاونت کی جا سکے۔

امریکی اور غیر ملکی افواج طالبان کے ساتھ معاہدہ کے تحت بیس سال بعد افغانستان سے واپس جا رہی ہیں اور غیر ملکی افواج کا انخلا 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔

دوسری جانب طالبان کی جانب سے صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا صحافتی کام جاری رکھ سکتے ہیں اور اُنھیں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

مگر جاری کردہ ہدایات کے مطابق صحافیوں کے لیے لازم ہوگا کہ اپنی رپورٹنگ کے دوران ’افغانستان کے قومی مفاد کا خیال رکھیں۔‘

طالبان کے کلچرل کمیشن برائے ملٹی میڈیا کے سربراہ اسد افغان کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’چند پیسوں کی خاطر اپنی اہم ذمہ داری کو ملک اور قوم کے خلاف استعمال نہ کریں اور ذمہ داری کے ساتھ افغان عوام کی مشکلات پر کام کریں اور ان کی آواز متعلقہ اداروں تک پہنچائے۔‘

واضح رہے کہ بیشتر شہروں پر طالبان کے قبضوں کے بعد افغانستان کے صحافیوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اُنھیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جائے گا اور اسی وجہ سے کئی صحافی ملک چھوڑنے کی تگ و دو میں ہیں۔


متعلقہ خبریں