اب معذور افراد بھی ہاتھوں کا استعمال کیے بغیر ٹائپ کر سکیں گے

معذور افراد بھی صرف سوچ کر ٹائپ کر سکیں گے

سائنس دان معذور افراد کے لیے اپنے خیالات سے بات چیت کرنے کے لیے بہت سارے طریقوں کی تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ دماغ کے کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) ٹیکنالوجی کو اہم قرار دے رہے ہیں جس کی مدد سے فالج یا دوسری قسم کی معذوری کا لوگ اپنے ہاتھوں یا انگلیوں کو استعمال  کیے بغیر تیزی سے پیغامات ٹائپ کرسکیں گے۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور ہاورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے محقیقین کا کہنا ہے کہ دماغ کے کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) میں افکار کو عمل میں بدل سکتے ہیں۔ انٹرفیس لکھنے کی سوچ کو ڈیکوڈ کرتا ہے جس سے لکھنے کا عمل پیدا کرتا ہے۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے محقیقیق کے مطابق پہلی مرتبہ گردن سے نیچے تک مکمل طور پر معذور شخص نے اپنے دماغ سے اسکرین پر جملے لکھے جو طبی تاریخ میں ایک بہت نمایاں کامیابی ہے۔

سائنسدانوں نے بال سے باریک دو الیکٹروڈ سینسر مریض کے دماغ کے بائیں جانب لگائے اور اس سے کہا کہ وہ اپنے دماغ میں جملے اس طرح لکھے جیسے عام لوگ ہاتھ سے کاغذ پر تحریر لکھتے ہیں۔ اسے ’مائنڈ رائٹنگ‘ یا دماغی تحریر کا نام دیا گیا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق نو برس سے معذور 65 سالہ شخص سے کہا گیا کہ وہ اپنے ذہن میں کاغذ اور قلم کا تصور کرے۔ اس دوران دماغ میں تصور کرنے کا سارا عمل سینسر نے نوٹ کیا۔ اس میں تحریر کے گھماؤ اور بناوٹ کو ایک الگورتھم نے پڑھا اور وہ سامنے اسکرین پر ٹیکسٹ کی صورت میں نمودار ہوتا رہا۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق دماغی تحریر کا عمل عام فون پر ٹیکسٹ لکھنے سے بھی تیزرفتار ہے۔

سائنسدانون کے مطابق اگرچہ لکھنے کا عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہے اور ہاتھوں کی حرکات میں لاکھوں نیورون (عصبی خلیات) سرگرم ہوسکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے صرف 200 اہم عصبی خلیات کوہی تختہ مشق بنایا جس کا ڈیٹا مصنوعی ذہانت کے ایک سافٹ ویئر تک بھیجا گیا اور اس کا نتیجہ اسکرین پر ظاہر ہوتا رہا۔

اس طرح معذور شخص نے ایک منٹ میں 18 الفاظ کامیابی سے لکھے جو اس سے قبل بنائے گئے تمام نظاموں سے دوگنا تیز ہیں۔ اس طرح یہ ایجاد دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں ایسے افراد کو آواز فراہم کرسکے گی جو فالج یا کسی حادثے کے بعد کچھ بھی کہنے اور لکھنے سے قاصر ہیں۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور ہاورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (HHMI) کے ریسرچ سائنس دان  فرینک ویلیٹ نے اس تحقیق کی قیادت کی ہے۔

ولیٹ کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو تیزی سے کمیونیکیشن کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

محقیقین کا کہنا ہے کہ جب چوٹ یا بیماری کسی شخص کو حرکت دینے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے تو اس میں چلنے، کافی کا کپ پکڑنے، یا کوئی جملہ بولنے کے لئے دماغ کی اعصابی سرگرمی باقی رہ جاتی ہے۔ محققین فالج یا معذور لوگوں کی کھوئی ہوئی صلاحیتوں کو دوبارہ استعمال میں مدد کے لیے اس انٹر فیس ٹیکنالوجی کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں