کورونا سے ٹھیک ہونے والے مریضوں میں مکمل صحتیابی کی شرح کتنی؟

کورونا سے ٹھیک ہونے والے مریضوں میں مکمل صحتیابی کی شرح کتنی؟

دنیا میں جیسے جیسے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اس بیماری کے بارے میں نئی تحقیق سامنے آرہی ہے۔

برطانیہ میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے 10 مریضوں میں سے ہر ساتواں مریض اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے پانچ ماہ بعد بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے برطانوی سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے حوالے سے بتایا ہے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد  میں جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔ کورونا کا شکار ہر پانچوے مریض میں سے ایک فرد میں جسمانی معذوری پیدا ہوگئی ہے جس کے سبب وہ اپنے کام پر نہیں جاسکا ہے۔

نئی تحقیق کے مطابق کوڈ-19 کا شکار افراد میں درمیانی عمر کی سفید فام برطانوی خواتین میں مستقل علامات پائی گئی ہیں اور ان میں ذیابیطس، دمہ اور دل کے دورے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس حوالے سے برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر رچیل ایونز کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق میں کورونا کے مریضوں میں جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ جسمانی اعضا کو پہنچنے والے نقصان کے شواہد بھی ملے ہیں۔

ان کا مزید پتانا ہے کہ تحقیق کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ وینٹی لیٹر اور انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں داخل ہونے والے مریضوں کی صحت یابی میں زیادہ وقت لگتا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم دریافت

برطانیہ میں یہ تحقیق کورونا سے ٹھیک ہونے والے ایک ہزار سے زائد مریضوں پر کی گئی جن میں سے اکثر مریضوں کو مارچ 2020 سے نومبر کے درمیان اسپتالوں سے ڈسچارج کیا گیا تھا۔ ان میں 67 فیصد سفید فام جبکہ 36 فیصد خواتین تھیں۔
نئی تحقیق کے مطابق پانچ کے مشاہدے کے بعد صرف 29 فیصد مریضوں نے کہا کہ وہ مکمل صحت ہوگئے ہیں جبکہ 90 فیصد افراد میں کورونا وائرس کی کوئی نہ کوئی علامت موجود تھی۔
تحقیق کے مطابق کورونا سے ٹھیک ہونے والے مریضون میں پھٹوں کا درد، تھکاوٹ، جسمانی سست روی، بے خوابی، جوڑوں میں درد یا سوجن، سانس لینے میں دشواری اور یاد داشت کی کمزوری کی علامات ہنوز برقرار  تھیں۔

تحقیق کاروں نے مشورہ دیا ہے کہ حکومتی سطح پع کورونا وائرس سے بچ جانے والے افراد کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہے، جس میں کلینکل فالو اپ کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں