بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ 13 برس بعد بھی حل نہ ہو سکا

بے نظیر بھٹو: ایک عہد جو 27 دسمبر 2007 کو تمام ہوا

راولپنڈی: سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے لیاقت باغ میں قتل کو 13 برس بیت گئے لیکن یہ معمہ آج بھی حل نہ ہو سکا۔

اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیربھٹو کا قتل ملکی تاریخ کے بڑے سانحات میں سے ایک ہے۔

بینظیر قتل کیس انسداد دہشتگردی کی عدالت میں 9 سال 8 ماہ اور 4 دن چلا اور 8 چالان پیش کیے گئے۔ استغاثہ کی جانب سے 6 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے۔

ویڈیو لنک کے ذریعے صحافی مارک سیگل نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا کیس کی سماعت کے، دوران آٹھ جج تبدیل ہوئے جب کہ دوران ٹرائل زرداری فیملی ،قمر زمان کائرہ کو بھی 10 بار، نوٹس بھیجے گئے لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک بار بھی کوئی پیش نہ ہوا۔

2017 کو کیس کا کے فیصلے میں گرفتار ملزمان اعتزاز شاہ، حسنین گل، رفاقت ، شیر زمان اور رشید احمد کو بری کرنے کا حکم دیا گیا۔

سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد سترہ سترہ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائیں گئی جب کہ سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر تمام زمین ضبط کرنے کے حکم سنایا گیا۔

بے نظیر بھٹو: ایک عہد جو 27 دسمبر 2007 کو تمام ہوا

جائے وقوعہ کو دھو کر ثبوت ختم کرنے کے الزام میں گرفتار دونوں پولیس افسران اس وقت ضمانت پر رہا ہیں اور سزا کا فیصلہ معطل ہو گیا جس کے خلاف پیپلزپارٹی نے اپیل بھی نہیں کی۔

پانچ ملزمان میں سے شیر زمان اور اعتزاز شاہ بری ہوکر گھر جا چکے ہیں۔ ملزم رفاقت لاپتہ ہے جس کو جیل حکام نے رہا کردیا لیکن والدین کا کہنا ہے وہ آج تک گھر نہیں پہنچا جبکہ رشید اور حسنین گل نقص امن اور اسلحہ بارود کے کیسز میں جیل میں ہیں۔

12جنوری 2021 کو بینطیر قتل کیس کے فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی، ملزمان، ایف آئی اے کی مجموعی طور پر سات اپیلوں سماعت ہو گی۔

المیہ یہ ہے کہ اس کیس سے جڑی شخصیات جن میں بینظیر بھٹو کے سیکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ، مرکزی ملزم بیت اللہ محسود،ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو چن چن کر قتل کردیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں