محصور کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے اور جنت نظیر وادی میں جبر کے کالے بادل اقوام عالم کا منہ چڑا رہے ہیں۔
غیر قانونی طور پر بھارتی زیر قبضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا ہوا ہے اور وہاں لاک ڈاؤن، کرفیو، تعلیمی اداروں اور مواصلات کی بندش کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام انیس سو سینتالیس سے بھارتی حکومت کا ظلم و جبر سہہ رہے ہیں۔
کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی نہ ماننے والا بھارت خود مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ، کشمیرمیں استصواب رائے کا فیصلہ سنا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:5اگست:کشمیریوں پر ظلم کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ
مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل نے پہلی قرارداد نمبر انتالیس20جنوری 1948 کو منظور کی جس کے تحت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔
اکیس اپریل انیس سو اڑتالیس کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر سنتالیس منظور کی جس کے تحت سابقہ قرارداد میں تجویز کردہ کمیشن کے ممبران کی تعداد کو بڑھایا گیا۔
اس قرارداد میں پیش کردہ تجاویز کے تحت مسئلہ کشمیر کا تین مراحل پر مشتمل حل پیش کیا گیا۔ کمیشن کا امن و امان بحال کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں استصواب رائے کرانے کا حکم دیا گیا۔
تین جون انیس سو اڑتالیس کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر اکیاون کے ذریعے پچھلی قراردادوں میں بنائے گئے کمیشن کو مقبوضہ علاقے کا دورہ کرنے کا حکم دیا۔
چودہ مارچ انیس سو پچاس کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد نمبر اسی میں پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی پرعمل درآمد کرتے ہوئے خطے سے فوجیں ہٹانے کا کہا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: یوم استحصال کشمیر:میں کشمیریوں کاسفیر بنارہوں گا، وزیر اعظم
کشمیری تنگ آچکے ہیں اوردنیا کی توجہ کے منتظر ہیں۔ کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمد کے منتظر ہیں۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیریوں کیلیےحق خود ارادیت کا وعدہ کیا گیا۔ آہوں، سسکیوں، بندشوں، کرفیو اور بندوقوں کے سائے میں اہل کشمیر آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔
انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ،، بھارت کے مظالم ،، لمحہ فکریہ ہیں ۔۔ آخر کب تک کشمیر میں نسل کشی کا سلسلہ جاری رہے گا ؟ کب تک کشمیری اپنے حق خود ارادیت سے محروم رہیں گے ؟۔۔۔ آخر کب تک ؟؟