ماہرین نے موسمیاتی تبدیلی کو اقوام عالم کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں موسم انسانوں کی ’برداشت سے زیادہ گرم‘ ہو سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق انسان کارخانوں اور زراعت کے ذریعے گرین ہاؤس گیسز فضا میں داخل کرکے قدرتی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں ، اس عمل کو عالمی تپش یا ماحولیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔
ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سو سالوں میں دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں 0.8 درجے کا اضافہ ہوا ہے جب کہ 0.6 درجے فیصد اضافہ صرف پچھلے تین عشروں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:دنیامیں بھوک و افلاس پھیلنے کا خدشہ، اقوام متحدہ کا انتباہ
مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق حالیہ عشروں میں سمندر کی سطح تین ملی میٹر سالانہ اونچی ہو گئی ہے اور پہاڑوں پر واقع گلیشیئر اور قطبی برف کی تہہ پگھل رہی ہے۔
بین الاقوامی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تخمینے کے مطابق 21ویں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ممکن ہے جبکہ دو ڈگری تپش کو خطرناک عالمی تبدیلی کی دہلیز سمجھا جاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے صاف پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو گی، خوراک کی پیداوار میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور سیلابوں، طوفانوں، قحط سالی اور گرمی کی لہروں میں اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اموات واقع ہو سکتی ہیں۔
یو کے نیشنل ہیلتھ سروس کی 2015 میں ہونے والی بین الاقوامی تحقیق کے مطابق دنیا میں زیادہ اموات کی وجہ سرد موسم ہے۔
تحقیق کاروں نے یہ نتائج دنیا کے 384 مقامات پر ہونے والی7 کروڑ بیالیس لاکھ اموات کی بنیاد پر اخذ کیے۔ دنیا بھرمیں بچوں کا مستقل خطرے سے دوچار ہے عالمی ادارہ صحت یونیسیف اور طبی جریدہ دی لینسیٹ کی رپورٹ کے مطابق کوئی بھی ملک ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہا ہے۔