دمشق: امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شامی شہر دوما میں مبینہ کیمیائی حملے کو جواز بنا کر بشارالاسد حکومت کے خلاف میزائل حملہ کر دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا کہ شامی حکومت کی جانب سے اپنے ہی شہریوں پر کیمیکل حملوں کے جواب میں کی گئی کارروائی کا مقصد بشارالاسد کو آئندہ ایسے اقدام سے روکنا ہے۔
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) April 14, 2018
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی جانب سے ممنوعہ کیمیکل ہتھیاروں سے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام روکنے تک شامی حکومت پر دباؤ برقرار رکھیں گے۔
شامی میڈیا رپورٹس میں حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ دمشق کی فضاؤں میں میزائل پرواز کرتے دکھائی دیے جنہیں روکنے کے لئے بشارالاسد انتظامیہ کا میزائل دفاعی نظام بھی فعال رہا۔
اسد انتظامیہ کے ٹیلی ویژن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شامی دفاعی نظامی نے 13 میزائلوں کو ناکارہ بنایا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں شام کے سائنسی مرکز سمیت، فوجی ڈپو اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں تصدیق کی گئی ہے کہ امریکا اور اتحادیوں کے میزائل حملے میں دمشق سمیت حمص کے مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مغرب نے ہر ممکنہ طریقہ آزمایا، سفارتی کوششیں کیں تاکہ اسد حکومت کیمیائی حملے نہ کرے لیکن شام اور روس کی جانب سے ہماری کوششوں کو نظرانداز کیا جاتا تھا۔
The Prime Minister @theresa_may has made a statement on Syria: https://t.co/bBfYyowUIo pic.twitter.com/QlTeFXmOkt
— UK Prime Minister (@10DowningStreet) April 14, 2018
خاتون وزیراعظم کے مطابق شامی حکومت کو کیمیائی حملوں سے روکنے کے لئے طاقت کے استعمال کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کا مقصد نا تو خانہ جنگی میں شامل ہونا ہے نا ہی اسد حکومت کو ہٹانا۔
یہ بھی دیکھیں: شام میں کیمیائی حملے کے ردعمل کا فیصلہ جلد کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حملوں کا ہدف اسد حکومت کے کیمیائی ہتھیار ہیں۔
Dozens of men, women and children were massacred using chemical weapons in Douma on Saturday, 7 April.
The red line has been crossed.
I have therefore ordered the French armed forces to intervene.https://t.co/mezFfV1Hh9 pic.twitter.com/7lVhMjhx9I— Emmanuel Macron (@EmmanuelMacron) April 14, 2018
امریکی صدر نے برطانیہ، فرانس اور امریکا کے مشترکہ حملوں کے متعلق تفصیل فراہم نہیں کی البتہ شامی حدود کے باہر سے فائر کئے گئے میزائل حملوں کے متعلق یہ ضرور کہا کہ ان کا مقصد کیمیائی حملے روکنا ہے۔
ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب انہوں نے شام پر حملے کا حکم دیا ہے۔ اس سے قبل اپریل 2017 میں بھی وہ اسد حکومت کے زیرانتظام ائیرپورٹ پر ٹام ہاک کروز میزائلوں کے حملوں کا حکم دے چکے ہیں۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے بھی اسد حکومت کے خلاف امریکا، برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ حملے کی حمایت کی ہے۔
روس اور ایران کا ردعمل
روس اور ایران نے میزائل حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا کا کہنا تھا کہ امریکی حملے ایک ایسے وقت میں کئے گئے ہیں جب شام امن کی جانب سے واپس لوٹ رہا تھا۔
امریکا میں روسی سفیر اناطولی انٹونوو کا کہنا ہے کہ ہمارے خبردار کرنے کو نظرانداز کیا گیا۔ پہلے سے طے شدہ منصوبہ مسلط کر کے دھمکایا گیا ہے۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ایسی کارروائی جواب دیے بغیر نظرانداز نہیں کی جائے گی۔ اب تمام تر ذمہ داری واشنگٹن، لندن اور پیرس پر عائد ہو گی۔