جمیعت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے کہا ہے کہ 20 جولائی 2018 کے بعد سیاستدانوں جو نے متفقہ بیانیہ دیا ہمارا وہی بیانیہ چل رہا ہے اور ہم آنے والے چند مہینوں میں پھر سے سڑکوں پر آنا چاہتے ہیں۔
لاہورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور نئی تحریک کا آغاز پنجاب سے کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قوم کی رائے آزادی مارچ میں سامنے آ گئی، پورے ملک نے ہر صوبہ نے ہمارا استقبال کیا، اپوزیشن کی وحدت سے حکومت کمزور ہوتی ہے اور اگر اپوزیشن بکھر جائے تو حکومت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ق لیگی قیادت کے ساتھ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا دینی مدارس کو ہر صورت آزاد رکھا جائے گا، دنیا نے مذہبی مدارس کا منفی تاثر دیا ہوا ہے، دینی مدارس ہمارے ملک کی جڑیں ہیں اور وہ کمزور جڑیں نہیں ہے، ہمیں اپنے تعلیمی نصاب پر اطمنیان ہے۔
جے یوآئی سربراہ نے کہا کہ مدارس کے نظام کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہم مدارس کی آزادی کے حوالہ سے ایک مربوت نظام بنانا چاہتے ہیں۔
آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالہ سے ہم یہی سوچتے تھے کہ کسی سرکاری آفیسر کی تقرری کو سیاسی مسئلہ نہیں بنانا چاہیئے لیکن حخومت نے خود ایکسٹینشن کے مسئلہ کوعدلیہ میں گھسیٹا۔