توہین عدالت کیس: غلام سرورخان کو شوکاز نوٹس، فیصلہ محفوظ

فائل فوٹو


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیرغلام سرور خان اور معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 25 نومبر کو سنایا جائے گا۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ معاملے کی سماعت کی اور غلام سرور خان کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا اس کا جواب جمع کرائیں۔ وفاقی وزیراور فردوس اعوان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ آپ کے بیان سے حکومت اور عدالتی کاروائی پر کیا اثر ہوگا ؟ آپ کے بیان کی وجہ سے حکومت پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔

جج نے استفسار کیا غلام سرور خان صاحب آپ کے حلقے کے ووٹرز کتنے ہیں؟ وفاقی وزیر نے جواب دیا میرے حلقے میں ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ سے زیادہ ہیں۔

عدالت کے سربراہ نے کہا آپ کی عزت بھی انہی ووٹرز کی وجہ سے ہے، عوام کا اداروں پر اعتماد ختم نہ کریں۔ آپ وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ جب اپنے میڈیکل بورڈ سے متعلق لوگوں کو شبے میں ڈالیں گے تو پھر کیا ہوگا؟ آپ اس عدالت کو بتا دیں کہ کیا کوئی ڈیل ہوئی ہے؟ آپ بتائیں کہ جو میڈیکل رپورٹ حکومت نے جمع کرائی کیا وہ تبدیل کی گئی؟

جج نے کہا آپ نے ڈیل کا بیان دیا ہے اور یہ عدالت اسی میڈیکل رپورٹ پر فیصلہ کرتی ہے، آپ کو اندازہ نہیں آپ کے بیان سے حکومت اور عدالت پر کیا اثر پڑے گا؟ آپ اپنی حکومت پر عوام کا اعتماد ختم کر رہے ہیں۔

غلام سرور خان کہا کہ’میں نے تو میڈیکل رپورٹ پر شک کا اظہار کیا تھا توہین عدالت کی بات نہیں کی‘۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے پھرعدالت آپ کو شوکاز نوٹس جاری کر رہی ہے اس کا جواب جمع کرائیں، عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے اور آپ پھر وہی بات کر رہے ہیں۔

جج نے کہا کہ نواز شریف کے کیس کی اپیل ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے،  آپ سیاست کریں لیکن عدالت میں زیر سماعت کیسز پر تبصرہ نہ کریں۔

عدالت کے سربراہ نے کہا آپ کو موقع دیا تھا کہ کیس کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔

وفاقی وزیر غلام سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ کیس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔

عدالت نے غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

یاد رہے کہ خالد محمود ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی جس میں غلام سرور خان اور پیمرا کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ وفاقی وزیر نے ٹی وی چینل کے پروگرام میں دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی رہائی کسی ڈیل کے تحت ہوئی ہے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ غلام سرور خان کو طلب کر کے ڈیل سے متعلق حقائق معلوم کیے جائیں اور ان  سے پوچھا جائے کہ ڈیل پر عمل درآمد کرانے میں کس ادارے نے کردار ادا کیا؟  وفاقی وزیر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا جائے۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ سماعت پر تحریری معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔

معاون خصوصی نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ عدالت اور ججز سے متعلق 29 اکتوبر کی پریس کانفرنس میں اپنے ریمارکس غیر مشروط واپس لیتی ہوں۔

انہوں نے وضاحت دی کہ پریس کانفرنس کے دوران مجھ سے خاص پیرائے(ٹارگٹڈ) میں سوال کیا گیا، میری پریس کانفرنس صرف نواز شریف کے زیرالتوا کیس سے متعلق نہیں تھی۔

جواب کے متن میں شامل ہے کہ’ میرا کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ عدالت نواز شریف کو خصوصی ریلیف دے رہی ہے، میں نے کہا کہ ہفتے کے روز سماعت سے زیرالتوا کیسز میں عام سائلین بھی مستفید ہو سکیں گے’۔


متعلقہ خبریں