اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سرکاری اشتہارات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تصاویر نہ لگائی جائے۔
پیر کوچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن ( پی بی اے ) نے درخواست جمع کروائی کہ انہیں فریق بننے کی اجازت دی جائے۔ پی بی اے کی جانب سے بابر ستار اور منیراے ملک عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عوام کے پیسے پر سرکاری اشتہار دینا درست ہے؟ منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ سرکاری رقم سے مہم نہیں چلنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی کے پیسوں پر جتنے مرضی اشتہارات چلائیں۔ پی بی اے کے دونوں وکلاء عدالت کو لائحہ عمل سے آگاہ کریں اور بتایا جائے کہ متعلقہ افراد سے ریکوری کیسے کرسکتے ہیں؟
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلی پنجاب نے 55 لاکھ روپے جمع کرادیئے ہیں؟ کیونکہ شہباز شریف نے خود کہا تھا کہ وہ رقم جمع کرائیں گے۔
پنجاب حکومت کی وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اختیار کیا کہ شہباز شریف نے چیک لکھ کر رکھا ہوا ہے۔ 28 فروری کے بعد سے سرکاری اشتہارات پر شہباز شریف کی تصویر نہیں لگ رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیک جمع کرادیں کہیں گم نہ ہوجائے۔ الیکشن کمیشن کو پارٹی فنڈز کے آڈٹ کا بھی حکم دیں گے۔ آئندہ انتخابات شفاف ہوں گے۔ لوگ کہیں گے کہ 1970 کے بعد شفاف انتخابات ہوئے ہیں۔
عاصمہ حامد نے55 لاکھ روپے کا چیک عدالت میں پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 55 لاکھ روپے کی ادائیگی پارٹی فنڈ سے کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بڑے بڑے بیوروکریٹس کو بھی بدل دیں گے۔ بیوروکریٹس کی سردمہری سے ہی تمام کام ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی کو دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کریں گے۔
عدالت عظمی نے صوبائی حکومتوں، پی بی اے اور پی این ایس کے وکلاء سے معاملے پر تجاویز طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اشتہارات کو بند نہیں کریں گے، صرف سیاسی تصاویر والے سرکاری اشتہارات بند ہوں گے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اب سندھ میں بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو کی تصاویر بھی نہیں آنی چاہئیں۔ وزیراعلی کے پی اور عمران خان کی تصاویر والے سرکاری اشتہارات پر بھی پابندی کا حکم دیا گیا۔
چیف جسٹس نے سرکاری وکیل کو تنبیہ کی کہ اگر اب سرکاری اشتہارات میں سیاسی شخصیات کی تصویر ہوئی تو ذمہ دار آپ ہوں گے۔ عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت سے گزشتہ ایک سال کے سرکاری اشتہارات کا ریکارڈ طلب کیا۔
کے پی حکومت کی جانب سے عدالت میں جواب جمع کرایا گیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے کُل کتنے اشتہارات دیئے تھے؟ عمران خان اور پرویز خٹک کی تصاویر والے کتنے اشتہارات تھے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا کے زیادہ تر اشتہارات معلومات پر مبنی ہیں۔ اشتہارات میں عوام کو دی گئی سہولیات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کےوکیل نے بتایا کیا کہ ہم ٹی وی، اخبار اور ریڈیو پر اشتہارات دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کے پی حکومت کے سیکرٹری اطلاعات سے استفسار کیا کہ ایک ماہ کے دوران اشتہارات پر کتنی رقم خرچ ہوئی ہے؟
سیکرٹری کے پی کے نے بتایا کہ گزشتہ تین ماہ میں 204 ملین کے اشتہارات دیئے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے دور میں ایک ارب 63 کروڑ روپے کے اشتہارات دیئے گئے۔ کسی سیاسی شخصیت کو اشتہار میں جگہ نہیں دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ بیان حلفی دے سکتے ہیں کہ کسی اشتہار پر تصویر نہیں تھی۔ اشتہارات کا مقصد عوام کو آگاہی دینا ہے۔