علامہ طالب جوہری کی طبعیت سنبھل گئی: ڈاکٹروں نے کمرے میں منتقل کردیا

علامہ طالب جوہری کی طبعیت سنبھل گئی: ڈاکٹروں نے کمرے میں منتقل کردیا

کراچی: ممتاز عالم دین علامہ طالب جوہری کی صحت میں قدرے بہتری آنے کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں کمرے میں منتقل کردیا ہے۔ وہ اس سے قبل نجی اسپتال کے انتہائی نگہداشت (آئی سی یو) کے وارڈ میں زیر علاج تھے۔

ہم نیوز کے مطابق معروف عالم  دین کو نیورو لوجیکل ایشوز کے بعد نجی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے صحت کے پیش نظر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج رکھا تھا لیکن اب بہتری کے بعد کمرے میں منتقل کردیا گیا ہے۔

’علامہ اقبال نے اپنے شعروں میں سائنسی فلسفہ خوب صورت انداز میں پرو دیا‘

علامہ طالب جوہری کے اہل خانہ نے عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی جلد اور فوری صحتیابی کے لیے دعا کریں۔

ساؤتھ سٹی اسپتال کراچی کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ ممتاز عالم دین کی حالت خطرے سے باہر ہے اور وہ رو بصحت ہیں۔

ستمبر 2019 میں بھی علامہ طالب جوہری کو علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ علامہ کے سیکریٹری سید ایاز امام رضوی نے اس وقت بھی عوام الناس سے اپیل کی تھی کہ وہ علامہ کی جلد اور فوری صحتیابی کے لیے دعا کریں۔

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت علماء کےمشاورتی اجلاس  کی اندرونی کہانی

علامہ طالب جوہری کا شمار ملک کے ممتاز اسلامی اسکالرز میں ہوتا ہے۔ وہ بلند پایہ شاعر، مؤرخ اور فلسفی بھی ہیں۔ ان کی دو غزلیں قارئین کے ذوق کے لیے درج ذیل ہیں۔

*************
میں دیار قاتلاں کا ایک تنہا اجنبی

ڈھونڈھنے نکلا ہوں خود اپنے ہی جیسا اجنبی

آشناؤں سے سوال آشنائی کر کے دیکھ

پھر پتہ چل جائے گا ہے کون کتنا اجنبی

ڈوبتے ملاح تنکوں سے مدد مانگا کیے

کشتیاں ڈوبیں تو تھی ہر موج دریا اجنبی

مل جو مجھ کو عافیت کی بھیک دینے آئے تھے

کس سے پوچھوں کون تھے وہ آشنا یا اجنبی

بے مروت شہریوں نے فاصلے کم کر دیے

ورنہ پہلے شہر کو لگتا تھا صحرا اجنبی

یہ منافق روپ کب سے میری عادت بن گیا

میرے چہرے سے ہے کیوں میرا سراپا اجنبی

                 **********

دھوپ جب تک سر پہ تھی زیر قدم پائے گئے

ڈوبتے سورج میں کتنی دور تک سائے گئے

آج بھی حرف تسلی ہے شکست دل پہ طنز

کتنے جملے ہیں جو ہر موقع پہ دہرائے گئے

اس زمین سخت کا اب کھودنا بے کار ہے

دفن تھے جو اس خرابے میں وہ سرمائے گئے

دشمنوں کی تنگ ظرفی ناپنے کے واسطے

ہم شکستوں پر شکستیں عمر بھر کھائے گئے

اب درندہ کھوجیوں کی دسترس میں آ گیا

نہر کے ساحل پہ پنجوں کے نشاں پائے گئے

آج سے میں اپنے ہر اقدام میں آزاد ہوں

جھانکتے تھے جو مرے گھر میں وہ ہمسائے گئے

ان گلی کوچوں میں بہنوں کا محافظ کون ہے

کسب زر کی دوڑ میں بستی سے ماں جائے گئے


متعلقہ خبریں