اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنسی ادویات بنانے والی نجی ادویہ ساز (فارما) کمپنی بند اور مالک کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
منگل کو عدالت عظمی میں جعلی ادویات کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے دواز ساز فیکٹری کا جائزہ لینا ہے، یہ کون سا ڈی آئی جی ہے جو اس کی حمایت کرتا ہے؟
نجی کمپنی کے مالک کی پشت پناہی پر جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس ڈی آئی جی کی وردی اترواتا ہوں، بدمعاشی کرتے ہو، خبردار اگر اس شخص کی حمایت کی۔’
عدالت عظمی کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ‘کمپنی غیرمعیاری ادویات بنا رہی ہے۔’
قبل ازیں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی کا لائسنس معطل کرنا چاہتے ہیں تو عدالتی فیصلے آجاتے ہیں۔
عدالت کے سامنے بے بسی ظاہر کرتے ہوئے ڈریپ حکام نے اعتراف کیا کہ نجی کمپنی کی جانب سے جعلی دواؤں کے لئے خام مال کا حصول اور اس کا طریقہ بھی معمہ ہے۔
چیف جسٹس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا کہ کمپنی کے خلاف مقدمات درج کرے، ایف آئی اے اور نیب حکام کمپنی کے اثاثوں کی چھان بین کریں۔
عدالتی سماعت سے قبل نجی کمپنی کے مالک عثمان نے میڈیا سے گفتگو بھی کی۔ جعلی جنسی و دیگر ادویات بنانے والی کمپنی کے مالک کا کہنا تھا کہ ہماری کمپنی سستی ادویات بنا رہی ہے۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ ‘آپ کی کمپنی 22 غیر رجسٹرڈ ادویات بنا رہی ہے؟’ جس پر عثمان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری کمپنی ایک بھی غیررجسٹرڈ دوا نہیں بنا رہی۔’
ملزم عثمان نے ڈریپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ادارے میں 25 ارب روپے کی سالانہ کرپشن ہے، سستی ادویات بنانے کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عدالتی سماعت کے دوران ملزم عثمان عدالت میں پیش ہوا جہاں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘کیا چیز ہے یہ عثمان؟’۔ اس موقع پر جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ ‘ابھی جا کر اس کی ادویات کی فیکٹری بند کر دیں۔’
ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کو فوری طور پر فیکٹری بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کون سا ڈی آئی جی، عثمان کی حمایت کرتا ہے؟’
عدالت عظمی نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس (آئی جی) کو حکم دیا کہ وہ ڈی آئی جی کے خلاف تحقیقات کریں۔
اس موقع پر عدالت نے ریجنل پولیس آفیسر بہاولپور (آر پی او) کو معطل کرنے کا حکم دیا، جسے بعد ازاں واپس کرتے ہوئے پولیس افسر کو آٹھ مارچ تک کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
جعلی ادویات کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نجی فارما کمپنی ائورسٹ کے مالک کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ تین گھنٹے میں فیکٹری سیل کر کے رپورٹ دیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران ڈریپ نے عدالت کو بتایا تھا کہ جعلی اور جنسی ادویات بنانے والی فیکٹری کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔ ایسی کوشش کریں تو ایف آئی اے اور پولیس کا ایک افسر دھمکانا شروع کر دیتے ہیں۔ ادارے کے خلاف متعدد جعلی مقدمات بھی درج کروائے گئے ہیں۔
عدالت عظمی نے صورتحال پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ مذکورہ فیکٹری کے مالک کو کورٹ میں پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں مذکوہ شخص کون ہے جس سے سرکاری حکام بھی خوفزدہ ہیں۔