چھوٹے تاجروں کیلئے فکس ٹیکس کا نظام لانا چاہیے، سابق وزیر خزانہ


کراچی: سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ حکومت بڑے ٹیکس چوروں کو چھوڑ کر چھوٹے تاجروں کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ چھوٹے تاجروں کے لیے فکس ٹیکس کا نظام لائے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان کے میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ سابق وزیر خزانہ مشاورت کرتے تھے جو ملک کے لیے بھی بہتر تھا لیکن انہیں بعد میں تبدیل کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر نے جلدی میں ایسے اہداف لے لیے جو پورے کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایف بی آر کے ریونیو میں کل 15 فیصد اضافہ ہوا۔ حکومت کے ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے تاجر برادری پریشان ہو گئی۔ حکومت کو سب سے پہلے زیادہ ٹیکس والوں کو پکڑنا چاہیے تھا کہ ان سے سو فیصد ٹیکس وصول کیا جائے اور بعد میں چھوٹے تاجروں کی طرف جایا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ ہر دکان اور صنعتی ادارے کی ڈاکیومنٹیشن ہونی چاہیے لیکن آپ بجلی کے بل پر ویسے بھی ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ صنعتی ادارے بالکل بھی فارغ نہیں ہیں وہ ٹیکس دیتے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت اپنے اہداف میں کامیاب ہو رہی ہے لیکن حکومت نے ضرورت سے زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا ہے۔ کھانے پینے کے اشیا کی قیمت 15 فیصد سے زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے غریب عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی سمت درست ہے لیکن عام شہری پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے ایکسپورٹر کو ریفنڈ دیں لیکن حکومت نے صرف 30 فیصد ریفنڈ دیا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ حقیقت یہ ہے آپ نے ہر طرف سے قرض لے لیا ہے اب آپ کے پاس ڈالر خریدنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اب حکومت کی کوشش ہے شرح سود بڑھا کر رکھیں جس کی وجہ سے صنعتکاروں کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کو کم کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ کی صنعتی پیداوار گزشتہ ستمبر سے کم ہو چکی ہے جو تاحال جاری ہے۔ گاڑیوں کی فروخت 40 فیصد کم ہو چکی ہے جن کی بہت سے وجوہات ہیں۔ پاکستان کا انکم ٹیکس کا نظام دنیا سے بہت مختلف ہے، ہم ود ہولڈنگ سے اپنا 70 فیصد ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ہمارا مزدور بجلی کے بل اور موبائل پر بھی ٹیکس دے رہا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مزید کہا کہ حکومت نے گیس کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھائیں جس کا سب سے زیادہ فرق زراعت پر پڑھا۔ یوریا کھاد کی قیمتوں پر30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس سال کپاس کی کوالٹی میں بہت کمی آئی ہے جو آپ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ گنے کی کاشت کو کم کرے جسے بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا تو ملک کے باہر سے آنے والا سارا پیسہ رک جائے گا جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات 50 ارب ڈالر سے 30 ارب ڈالر پر آجائیں گی اور ملک کا حال بہت برا ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک میں چھوٹے تاجروں سے ٹیکس کا نظام فکس چلتا ہے اور انہیں ڈاکیو مینٹیشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں اس معاملے میں نہیں الجھانا چاہیے۔ ایف بی آر کے فیلڈ آفیسر چھوٹے تاجروں کو زیادہ تنگ کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے فکس ٹیکس کا نظام بہتر رہے گا۔

سابق وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس ودھ ہولڈنگ ٹیکس کا نظام ہے جسے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ حکومت کوشش یہ کرے کہ ٹیکس کا ایسا نظام لائے جو آسان ہو اور ایک پیج کا اردو زبان میں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں ‘ایف اے ٹی ایف کی کمزوریاں دور کرنے میں 2 سال لگ جائیں گے‘

انہوں نے کہا کہ بڑے ٹیکس چوروں کے پیچھے حکومت کیوں نہیں جاتی جنہوں نے دبئی میں بڑی بڑی جائیداد بنا رکھی ہے۔ ان سے بڑی رقم نکلوائی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ کا کہنا تھا کہ برآمدات حکومت کے بدن کا خون ہے لیکن حکومت انہیں ہی پریشان کر رہی ہے۔ حکومت تو چھوٹے برآمدات کو بہت تنگ کر رہی ہے۔

سابق چیف اکانومسٹ سندھ ڈاکٹر قاضی مسعود احمد نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی اپنی معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے گزشتہ 30 سال سے ہماری معیشت کی شکل بدل گئی ہے جس میں ڈاکیو منٹیشن کا کام بالکل بھی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو سمجھ رہے تھے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے آنے سے کارپوریٹ سیکٹر سب سے زیادہ ٹیکس دے گا لیکن بدقسمتی سے شبر زیدی نے کارپوریٹ سیکٹر بالکل ہی چھوڑ دیا۔ جس کا شبر زیدی کو تجربہ بھی تھا کیونکہ ان کے کارپوریٹ سیکٹر سے اچھے تعلقات ہیں۔

ڈاکٹر قاضی مسعود احمد نے کہا کہ ہماری سینکڑوں صنعتیں ٹیکس نہیں دے رہیں جس کا سب کو معلوم ہے۔ ہمارا زیادہ تر ٹیکس بینکنگ سیکٹر اور چند بڑی صنعتوں سے آ رہا ہے لیکن پہلے سال یہ بڑے تاجروں کو پکڑتے بعد میں چھوٹے تاجروں کی طرف آتے۔

انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس سروسز پر، پراپرٹی ٹیکس اور ایگریکلچر انکم ٹیکس بہت اہم ہیں لیکن ہم نے زیادہ کام سیلز ٹیکس پر کیا ہے جو زیادہ تر کراچی یا بڑی شہروں سے ہی آتا ہے اور اگر زرعی ٹیکس کی طرف توجہ دی جائے تو دیہی علاقے بھی ٹیکس سیکٹر میں آجائیں گے۔ شبر زیدی کو سب سے زیادہ توجہ کارپوریٹ سیکٹر پر دینی چاہیے اور ان سب کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔

پروگرام کے میزبان عامر ضیا نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلی ششمائی میں ٹیکس وصولی میں 90 فیصد ہدف کو حاصل کیا تاہم توانائی کے شعبے میں عوام کو اصلاحات کا انتظار ہے۔

انہوں نے کہا کہ مضبوط ریاست کی کامیابی دیکھنا ہو تو اس کی ٹیکس وصولی دیکھی جاتی ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ٹیکس ادا کریں۔


متعلقہ خبریں