عام آدمی کا کاروبار نہیں چلا تو حکومتی کاروبار بھی نہیں چلے گا، محمد مالک


اسلام آباد: سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمد مالک نے کہا ہے کہ  اگر عام آدمی کا کاروبار نہیں چلے گا تو حکومت کا کاروبار بھی نہیں چلے گا۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں میزبان محمد مالک نے کہا کہ مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کی ذاتی معیشت اور عام معیشت میں بہت فرق ہے۔ اس شرح سود پر کاروبار ہرگز نہیں چل سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے اور طریقہ ڈھونڈنا ہو گا کیونکہ عام آدمی کے 24 دن بڑی مشکل سے گزرتے ہیں۔

گروپ لیڈر اپٹما گوہر اعجاز نے کہا کہ ہماری کرنسی 40 فیصد گر گئی ہے ہر چیز ہی مہنگی ہوئی ہے اور یہ ابھی کم ہے اس نے اور بڑھنا ہے۔ ہم حکومت کو بار بار  کہہ رہے ہیں کہ ہمیں حکومتی پالیسی دے دیں لیکن نہیں دی جا رہی صنعتیں لگانے کے لیے کم از کم 5 سال کی پالیسی ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک اور مشیر خزانہ وہی کر رہے ہیں جو ٹیکسٹ بک میں لکھا ہوا ہے۔ ملک میں ٹیکسٹائل کی ضرورت ہے۔ صنعتکار 10 ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کو تیار ہیں لیکن حکومت اپنی پالیسی تو دے۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ اگر ہم نے ملک چلانا ہے تو ہمیں اپنی پالیسی بنا کر اسے ترجیح دینا ہو گی اور اس کے لیے آئی ایم ایف سے بیٹھ کر بات کرنا ہوگی۔ اس وقت 50 ممالک کا شرح سود منفی ہے۔ پاکستان اس شرح سود کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی ہر مانیٹری پالیس میں سود کا ریٹ دو فیصد گرانا چاہیے۔ حکومت کا پیسہ تو سود میں ہی جا رہا ہے اسے روکنا ہو گا۔ ہماری حکومت سوا 13 فیصد شرح سود پر کون سا کاروبار کس طرح چلائے گی ؟

ڈائریکٹر اے ایس جی واشنگٹن عزیر یونس نے کہا کہ حکومت نے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ کبھی کوئی اعلان کیا جاتا ہے اور کبھی کچھ۔ ابھی تو منی بجٹ بھی آنا باقی ہے جس میں مزید مہنگائی کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگا سکتی ہے اور جنوری  تک شاید معیشت کا مزید برا حال ہو جائے۔

عزیر یونس نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کا پروگرام لے چکا ہے اور اب شرح سود تو کم نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ پالیسی بنائے اور ایک ایک کر کے ان پر قابو پائے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ انرجی پالیسی  کا ہے حکومت کو اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ  پاکستان کو اس وقت انویسٹ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور ہنگامی بنیادوں پر دیہاتی خواتین کی صلاحیتیں بڑھانے کی ضرورت ہے جو ہماری زراعت میں کافی فائدہ مند ثابت ہوں گی۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ حکومت جو پالیسی لے کر چل رہی ہے اس کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں ہی سامنے آنا تھا۔ ہم نے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے روکا تھا لیکن اب جو آئی ایم ایف کی پالیسی ہے اس میں تو آپ معیشت کو بہتر نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتیں گزشتہ 8 ماہ سے خسارے میں جا رہی ہیں۔ حفیظ شیخ تو نوکری کر رہے ہیں اور جب ان کی نوکری ختم ہو جائے گی تو وہ  واپس چلے جائیں گے ان کے تو بچے بھی ملک میں نہیں ہیں۔ شرح سود کو کم کرنا پڑے گا ورنہ معیشت کا برا حال ہو جائے گا اور معاشی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ ڈی ویلیو سے پاکستان میں برآمدات نہیں بڑھیں گی کیونکہ ہمارے ملک میں  بیرون ممالک سے اشیا زیادہ آتی ہیں جن کا لین دین ڈالر میں ہوتا ہے اس وجہ سے بھی مہنگائی بڑھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو زراعت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

ماہر معاشیات مزمل اسلم نے کہا کہ 15 لاکھ سے 25 لاکھ ٹیکس دینے والے ہو گئے ہیں اور یہ 20 فیصد ٹیکس اس وقت بڑھا جب برآمدات کم ہو گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی وصولی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جو اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوئی۔ ایس ایم ایز اور آئی ٹی میں لوگوں کو کھپایا جاسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک اگلے 24 مہینے میں شرح سود کو 5 سے 7 فیصد تک گرانے کا ہدف رکھتی ہےجو جنوری سے نیچے آنا شروع ہو جائے گا۔


متعلقہ خبریں