’مریم تو پہلے دن سے خفیہ ملاقاتیں کر رہی ہیں‘



اسلام آباد:سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ پاکستان کی سیاست سے مذہبی انتہا پسندی بڑی مشکل سے کم ہوئی ہے اور اس کو دوبارہ نہیں لانا چاہیے۔

ہم نیوز کے پروگرام’ بریکنگ پوائنٹ ود مالک‘ میں انہوں نے شرکا کے سامنے سوال اٹھائے کہ کیا مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلنے جارہے ہیں اور کیا دیگر سیاسی جماعتیں ان کا ساتھ دیں گی۔

انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا مریم نواز جو ماضی میں خلائی مخلوق کی باتیں کرتی تھیں کیا اپنا بیانیہ تبدیل کرچکی ہیں؟

کیا مریم نواز کا بیانیہ تبدیل ہوگیا ہے؟

سوال کے جواب میں ارشاد بھٹی نے کہا کہ مریم تو پہلے دن سے خفیہ ملاقاتیں کر رہی ہیں یہ کوئی ایسی بڑی شخصیت نہیں جو اپنے بیانیے پر ٹک سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے دھونس، دھاندلی اور پیسے سے ہر چیز خریدی اور کسی سے کیا گیا ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔ ن لیگ کیسز میں پھنس چکی ہے یہ ڈیلوں کی پیداوار ہیں اور ان کو ایک ہی کام کرنا آتا ہے کہ کسی بھی طرح مال بچاؤ، کھال بچاؤ اور آل بچاؤ۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ ویڈیو کیس میں بھی پھنس گئی ہے، مریم نواز پارٹی پر تو قبضہ کر ہی چکی ہیں اب ان کا مقصد اقتدار میں آنا ہے۔

ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ بلاول تو یوٹرنی ہوگیا ہے یہ لوگ گرفتاریوں سے پہلے کہتے تھے حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے اور اب پیپلزپارٹی کا واحد ایجنڈا آصف زرداری کو جیل سے رہا کرانا رہ گیا ہے۔

کاشف عباسی نے کہا کہ ن لیگ کے بدلتے بیانیے پارٹی رہنما بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ ہم نے نوازشریف کو رہائی دلانا ہے یا پارٹی کے نظریے پر کھڑے ہونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نظریہ کا مطلب مقاصد کی نہیں اصولوں کی سیاست ہے لیکن مریم نواز نے بلوچستان میں جو تقریر کی اس سے ظاہر ہے کہ وہ کسی ادارے کو پیغام دینا چاہتی ہیں۔

کیا مذہب کارڈ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے؟

کاشف عباسی نے کہا کہ یہ کارڈ بہت کھیلا جاتا ہے پاکستان میں اور مولانا صاحب کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

سینئرصحافی نے کہا کہ فضل الرحمان جب تک مدرسے کے بچوں کو جہاد اور ناموس رسالت پر نہیں اکسائیں گے وہ اسلام آباد نہیں آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو فیصلہ کرنا پڑا گا کہ وہ فضل الرحمان کے ساتھ دھرنے میں آئے گی۔ بلاول ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ سیاست میں مذہبی کارڈ کھیلنے کے حق میں نہیں۔

سوال کے جواب میں کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی عوام کو باہر نہیں نکال سکتی اور ن لیگ کا ورکرز اس وقت باہر نکلنے کو تیار نہیں لہذا مولانافضل الرحمان دونوں پارٹیوں کی ضرورت ہیں۔

ارشاد بھٹی نے کہا کہ اگر ن لیگ اور پی پی لاک ڈاؤن کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تو فضل الرحمان کے پاس ہی نہ جاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کامیاب دھرنا دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی کیوں کہ تینوں پارٹیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔

کیا 2018 کا الیکشن چوری ہوا؟

ممبربورڈ فافن سرور باری نے کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود اپوزیشن ایسے ثبوت سامنے نہیں لا سکی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا ووٹ چرائے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ 2013 میں مسترد ہوئے تھے اور حزب اختلاف کا یہ عذر بھی درست نہیں کہ 2018 میں گنتی کیے گئے ووٹوں کی نسبت مسترد کیے گئے ووٹ زیادہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے تین ماہ قبل ن لیگ کے رہنما فافن کو بتایا کہ ان کو لیول پلےانگ فیلڈ مل رہی ہے۔ اپوزیشن کو اگر اب بھی بتائج پر شک ہے تو ریکارڈ موجود ہے وہ دوبارہ چیک کرلیں۔

سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے سوال کے جواب میں کہا انتخاب والے دن اس قسم کے واقعات سامنے نہیں آئے جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ الیکشن چوری ہوا۔

انہوں نے کہا کہ 25 جولائی 2018 سے قبل پری پول ریگنگ ضروری ہوئی اور امیدواروں کو پروجیکٹس دیے گئے۔

سینئرصحافی کاشف عباسی نے کہا کہ ایک سال بعد بھی الیکشن 2018 پر سوالیہ نشان ہے۔ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپوزیشن نے اسی بنیاد پر وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شفاف الیکشن کبھی نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ خرابیاں ہیں ان کو ٹھیک کرنا چاہیے تاکہ آئندہ انتخاب شفاف ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہر الیکشن سے قبل آزاد امیدوار اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں اور پاکستان میں طاقت کی سیاست ہوتی ہے۔

سینیئرصحافی ارشاد بھٹی نے کہا کہ صرف 1970 کا الیکشن ایسا ہے جس کو کسی حد تک شفاف کہا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے پہلے دن سے شورمچانا شروع کردیا تھا لیکن ایک سال بعد بھی ثبوت پیش نہیں کیے۔


متعلقہ خبریں