پرائیویٹ گروپس کیلئے پالیسی نہ ہونا فیس بک کا بڑا مسئلہ

پرائیویٹ گروپس کیلئے پالیسی نہ ہونا فیس بک کا بڑا مسئلہ

فائل فوٹو


سماجی رابطوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے اعتراف کیا ہے کہ پرائیویٹ گروپس غلط معلومات پھیلانے، نفرت انگیز بیانیے اور ہراساں کرنے جیسی مغلظات سے بھرے پڑے ہیں اور ان کے لیے کوئی پالیسی نہ ہونا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔

فیس بک پر اس وقت ایک ارب چالیس کروڑ لوگ مختلف پرائیویٹ گروپس میں شامل ہیں اور ان میں چار کروڑ افراد اپنے آپ کو بامعانی گروپس کا حصہ سمجھتے ہیں۔

پرائیوٹ گروپس کی سرگرمیاں فیس بک کے دیگر صارفین سے پوشیدہ رہتی ہیں اور ان میں صرف ہم خیال لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے۔

فیس بک پیجز کی طرح ہر صارف پرائیویٹ گروپس کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھ سکتا اور یہاں ہونے والی بحث بھی منظر عام پر نہیں آسکتی۔

سماجی رابطوں کی یہ ویب سائٹ ایسے گروپس بنانے کی اجازت دیتی ہے جن میں شمولیت کیلیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور عام صارف کو ان تک رسائی نہیں ہوتی۔

آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فیس بک نے اپنے آپ کو 2020 تک ایک صاف ستھری سوشل میڈیا ویب سائٹ بنانا ہے تو اس قسم کے پرائیوٹ گروپس سے متعلق کوئی پالیسی تشکیل دینی ہوگی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پرائیویٹ گروپس کی سہولت کافی عرصے سے موجود ہے لیکن ان میں ہونے والی سرگرمیوں کا معاملہ اس وقت کھلا جب امریکہ کے بارڈر پر مہاجر باپ بیٹی کی تیرتی نعشوں کی تصویر میڈیا پر آئی۔

یہ تصویر میکسیکو بارڈر پر ایک صحافی نے لی تھی جس نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا لیکن امریکی بارڈرز پر تعینات فورس کے پرائیویٹ گروپس میں بھی شیئر کی گئی تھی۔

امریکہ کی میکسیکو کے ساتھ سرحد پر20 ہزار اہلکار تعینات ہیں جن میں سے 9500 صرف ایک پرائیوٹ گروپ کا حصہ ہیں جس میں مہاجرین کی تصاویر تضحیک آمیز جملوں کیساتھ شیئر کی جاتی ہیں۔

فیس بک نے کہا کہ کمپنی نے بارڈر فورس کی جانب سے بنائے گئے ایک اور پرائیویٹ گروپ سے کچھ پوسٹیں ہٹا دی ہیں۔

تاحال امریکی بارڈر فورس کے دو پرائیویٹ گروپس کا انکشاف ہوا ہے جن میں مہاجرین کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اپنانے کی ویڈیوز اور اشتعال انگیز جملوں کیساتھ تصاویر شیئرز کی جاتی ہیں۔

ان گروپس میں ہونے والی سرگرمیاں منظر عام پر آنے کے بعد فیس بک انتظامیہ نے کہا ہے کہ ہم حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام صارفین پر قوانین کا یکساں اطلاق ہو۔


متعلقہ خبریں