’امن کی خواہش اچھی لیکن نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے مضبوط پاکستان ضروری ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش اچھی ہے لیکن امن کمزوری سے نہیں بلکہ طاقت اور برابری کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں عامر ضیاء نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے بار بار امن اور مذاکرات کی اپیل ہوتی ہے لیکن بھارت رد کردیتا ہے۔ سیاست اور سفارت کاری میں اچانک کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ واقعات طویل المدتی ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ مذاکرات سے سرکریک، کشمیر سمیت کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امن ضروری ہے اور سب ہی ایسا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ کمزوری نہیں ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ہم پر کچھ مسلط کر دیا جائے۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک نے کہا کہ دو ممالک کے درمیان تعلقات بہت مختلف معاملہ ہے کہ یہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت ابھی دنیا کے سامنے یہ تو نہیں کہے سکتا کہ پاکستان سے مذاکرات نہیں کرنے لیکن وہ ابھی پاکستان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔

آصف یاسین نے کہا کہ بھارت کا اندرونی طور پر موقف یہ ہے کہ مذاکرات سے ہمارا نقصان ہی ہوگا۔ جب تک مذاکرات کا انجام نہ پتہ ہو، ہمیں بھی اس سے زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت بیرونی دباو کاشکار ہے ، امریکہ سمیت مغرب کا دباو ہے کہ بھارت سے بات چیت کریں۔ ان کی کوشش ہے کہ بھارت کو خطے میں اس کے قد سے بڑا کردار دیں۔

آصف یاسین کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کے سامنے بہت سارے محاذ ہوتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ایک کو تو ٹھنڈا رکھیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھارت واحد ملک ہے جو مذہب کے نام پر بنا ہوا ہے، وہاں عدم برداشت بہت زیادہ ہے۔

دفاعی ماہر کا کہنا تھا کہ اب بھارت میں ہندو ہونا کافی نہیں رہا بلکہ بی جے پی کا حمایتی بھی بننا پڑتا ہے۔ بھارت کا اصل چہرہ سامنے آچکا ہے لیکن مغربی میڈیا نے اس پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی عزائم کے باعث خطے میں پیچیدگیاں ہورہی ہیں، بھارت اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کررہا ہے، امریکہ ایران تنازعے پر فارس میں دو جہاز بھیجنے کا مقصد بھی یہی ہے۔

آصف یاسین کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی ناکامیوں کے باعث بھارت نے اپنا اثرورسوخ ان تک بھی بڑھایا ہے۔ بھارت مفادات کے لیے کسی سے بھی تعلقات بنا لیتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ یہ تاریخ ہے کہ بھارت نے جب بھی مذاکرات کیے وہ دباو کے تحت ہی کیے ہیں۔ اب بھی بھارت پر جب تک دباو نہیں بڑھے گا، مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے بھارت سے تعلقات میں بہتری کے لیے بہت کوشش کی لیکن اس کے کوئی باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ فوج جنگ کبھی نہیں چاہیے گی کیونکہ اسے یہ لڑنی پڑتی ہے۔

نعیم خالد لودھی نے کہا کہ امریکہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور بھارت کے اندرونی حالات تین ایسے عناصر ہیں جو بھارت کو مذاکرات پر مجبور کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب لڑائی سے پہلے مذاکرات ہوتے ہیں تو وہ ناکام ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بعد ہونے والے مذاکرات ہمیشہ کامیاب ہوجاتے ہیں کیونکہ میدان جنگ طاقتور فریق کا فیصلہ کردیتا ہے۔

خالد نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ بھارت پر جب بھی دباؤ آئے گا تو مذاکرات ہوں گے، دنیا میں سیاسی، فوجی اور معاشی دباؤ سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کے اقدامات نے جن لوگوں کو دو قومی نظریے کے حوالے سے تحفظات تھے وہ دور ہوگئے ہیں۔ وہاں سے پاکستان میں مداخلت کے باقاعدہ اعلانات ہوئے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان پر نئی طرز کی جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس کا ہمیں بھرپور جواب دینا چاہیے۔

خالد نعیم لودھی نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت سمیت عالمی تنظیموں کا بھی رکن بننا چاہتا ہے اور اس کا مقصد اپنا اثرورسوخ بڑھانا ہے لیکن پاکستان خطے میں واحد ملک ہے جس نے اس کا راستہ روکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ممالک کی سطح پر تعلقات بہتر ہونے اور اختلافات ختم ہونے میں وقت لگتا ہے۔

عامر ضیاء نے پروگرام کے آخر میں کہا کہ امن کی خواہش اچھی ہے لیکن امن کی ضامن کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہوتی ہے، مستحکم اور مضبوط پاکستان ہی بھارت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کرسکتا ہے۔


متعلقہ خبریں