شفاف احتساب سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، سینیٹر مشاہداللہ خان



اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہداللہ خان کا کہنا ہے کہ اگر شفاف احتساب ہو تو اس سے
جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ نوازشریف کو نااہل کرنے والے چیف جسٹس ریٹائرڈ ہونے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ کینیڈا میں پریس کانفرنس کرتے ہیں تو بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان کے میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن اسے سیاسی جماعتوں کی شکست و ریخت کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیئے۔

رہنما مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان سمیت کسی بھی سیاست دان کو کام کرنے کی وہ آزادی نہیں ملی جو فوجی آمروں کو نصیب ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یو ڈی ایف اور پی این اے جن گھروں میں بنا میں وہاں موجود تھا اور مجھے علم ہے کہ وہ کن لوگوں نے بنایا اور پیسے خرچ کیے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ جب پاکستان بنا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خطے کے تمام جاگیرداروں کو کہا تھا کہ وہ قائداعظم کا ساتھ دیں۔ ان کا خیال تھا کہ قائداعظم ان کے آدمی ہیں۔ لیکن یہ ان کی غلط فہمی نکلی۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ انگریز نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کمزور ہو گئے تھے اور وہ اپنے مقبوضہ ممالک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن ان نے کوشش کی کہ ان ممالک میں بابائے قوم ان کا اپنا آدمی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ 1857 اور 1947 کی تحریکوں میں انگریزوں کا ساتھ انہی جاگیرداروں نے دیا تھا۔ وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کام کے لوگ تھے۔ وہ اب تک موجود ہیں اور اپنا کام دکھا رہے ہیں۔

نوازشریف کے شخصی طرز حکومت اور مبینہ بدعنوانی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ الزامات انہیں وزارت عظمی سے ہٹانے کے لیے لگائے گئے تھے ورنہ ان کے دور حکومت میں ہر شعبہ ہائے زندگی نے ترقی کی۔ اس وجہ سے بین الاقوامی قوتیں ان کے خلاف ہو گئیں۔

انہوں نے کہا کہ 58 ٹو بی اور فلورکراسنگ ختم کرنے کا سہرا میاں نواز شریف کے سر ہے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کو بھی ساتھ ملایا تھا۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ میاں نوازشریف پر اپنے دور اقتدار میں کاروبار کو ترقی دینے کا الزام غلط ہے۔ 1985 کے بعد ویسے ہی پاکستان میں بہت سے کاروباری لوگوں نے ترقی کی جن میں میاں صاحب کا خاندان بھی شامل تھا۔

موروثی سیاست کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ سیاست دان کے بچے چونکہ بچپن سے ہی گھر میں سیاسی سرگرمیاں دیکھتے ہیں تو وہ فطری طور پر اس طرف راغب ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر اس جماعت میں موروثی سیاست ہوتی تو حسن نواز یا حسین نواز نوازشریف کے جانشین ہوتے۔

پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس جماعت نے ابھی تک کوئی قابل تعریف کام نہیں کیا۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دنوں میں تمام جماعتیں متحد ہوئی ہیں تو شاید یہ ایک قابل تعریف بات کہی جا سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں