’چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنا ضروری ہے‘


اسلام آباد: ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے شرکا کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی تقرری کا طریق کار تبدیل کرنا ضروری ہے۔

پروگرام کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے سابق جسٹس اور ماہر قانون خواجہ نوید نے کہا کہ سیاسی لوگوں کے فیصلے ملک اور بیرون ملک دیکھے جاتے ہیں اس لیے فیصلہ تحریر کرنے والے بھی بہت محتاط ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ان کے لیے بہت بڑا ریلیف ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے نیب پر بہت دباؤ آیا ہے۔

نیب کے طریق کار کی تفصیل بتاتے ہوئے خواجہ نوید نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کسی شخص کی گرفتاری سے پہلے مکمل چھان بین کرتا ہے، اس کے بعد ریفرنس دائر کیا جاتا ہے۔ ناقابل ضمانت وارنٹ دینے کا اختیار چیئرمین نیب کے پاس موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نیب میں نئی بھرتیاں ہوئی ہیں جس کے بعد اس ادارے میں پراسیکیوشن کا معیار بہتر ہوا ہے۔ کام کا دباؤ بھی زیادہ ہے اور مقدمات بھی تکنیکی نوعیت کے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خلا رہ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر افسر دن میں تیس چالیس فائلوں پر دستخط کرتا ہے، بعد میں اسے اختیارات سے تجاوز کے الزام میں گرفتار کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کی نیت مجرمانہ تھی۔

پروگرام میں شریک سابق ڈائرکٹر جنرل نیب شہزاد انور بھٹی نے کہا کہ نیب مقدمات میں 70 فیصد جیت ہوتی ہے، البتہ بڑے مقدمات میں نیب کو کامیابی نہیں ہوتی، ایسے لگتا ہے کہ نیب میں قانونی مشاورت کا فقدان ہے۔ نیب اپنے پراسیکیوٹرز کو اتنی تنخواہ نہیں دیتی جتنی بڑے وکیل لیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک تگڑا تفتیشی افسر خود عدالت میں کھڑا ہو جاتا ہے، بہت دفعہ عدالت پراسیکیوٹر کو پیچھے کر دیتی ہے اور پورا مقدمہ تفتیشی افسر لڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب چیئرمین کی تقرری کا غیرمتنازعہ طریقہ کار تلاش کرنا ضروری ہے، زیادہ تر چیئرمین نیب اپنا دورانیہ مکمل نہیں کر سکے، ان کا کردار بھی متنازعہ ہوا جس کا برا اثر سارے عملے تک گیا۔

نامور ماہر قانون راجہ عامر عباس نے کہا کہ جب پانامہ کا فیصلہ آیا تو عدالت نے نیب کی تفتیش پر بھروسہ کرنے کے بجائے جے آئی ٹی بنا دی، منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ نیب کو اپنا تفتیشی معیار بہتر بنانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک نیب چیئرمین کی تقرری کا طریق کار تبدیل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس ادارے کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔

شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب عدالت میں نیب پراسیکیوٹرز خاموش رہتے ہیں تو پھر ملزمان عدالت سے رہا ہوتے رہیں گے۔ نیب آج تک کسی ایک بھی سیاستدان کو سزا نہیں دلوا سکا۔

نیب میں کسی کو بھی نوٹس بھیجے بغیر گرفتار نہیں کیا جاتا۔ سندھ میں آغا سراج درانی کے گھر چھاپہ مارا جاتا ہے لیکن پنجاب میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ ہر سیاسی حکومت نیب میں اپنے پراسیکیوٹر لگاتی ہے جس کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر صرف حزب مخالف کو احتساب کا نشانہ بنایا جائے گا تو پھر یہ عمل مشکوک ہو جائے گا۔

اپنی پارٹی کا موقف بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک کسی شخص کو عدالت سے سزا نہ ملے، اس وقت تک اسے گرفتار نہیں کرنا چاہیئے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر شواہد موجود تھے تو آغا سراج درانی کے گھر چھاپہ مارنے کیا کیا ضرورت تھی؟ نیب کو پہلے اسپیکر سندھ اسمبلی کے اہلخانہ کو نوٹس دینا چاہیئے تھا۔ یہ قانونی تقاضہ تھا جسے پورا نہیں کیا گیا۔


متعلقہ خبریں