بابر اعوان کی بریت کا فیصلہ 20 فروری کو سنایا جائے گا

فوٹو: ہم نیوز


اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان کی بریت کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سابق وفاقی وزیر بابر اعوان کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ ریفرنس میں دی گئی بریت کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے بریت کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو 20 فروری کو سنایا جائے گا۔

بابر اعوان نے اپنی بریت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو دو سمریاں وزارت قانون میں بھیجی گئی تھیں اس وقت میں وزیر نہیں تھا اور میری وزارت کے بعد بھی وزارت قانون کی جانب سے اپروول نہیں دیا گیا۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی وزیر قانون نے کبھی ایسی سمری کا اپروول نہیں دیا بلکہ یہ کام سیکرٹری کرتا ہے جب کہ چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) نے لکھا کہ وہ مطمئن ہیں کہ ملزمان کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہیں لیکن جو ریفرنس دائر کیا گیا اس کو جس طرح مرضی پڑھیں، میرا نام کہیں نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو حکم دیا کہ کسی کی بھی تضحیک نہ کریں۔

بابر اعوان نے کہا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ تاحال مکمل نہیں ہو سکا جب کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ جن لوگوں نے پراجیکٹ کو آگ لگائی کہ کام شروع نہ ہو ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے لیکن ان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کیا گیا، بس ہمارے خلاف جلدی تھی۔

راجہ پرویز اشریف کے وکیل نے کہا کہ چارج فریم ہونے سے پہلے ملزمان کو تمام دستاویزات فراہم کرنے ہوتے ہیں جب کہ میں فرد جرم سے پہلے کچھ گزارشات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ بریت کی درخواست پر دلائل کے بعد آپ کے دلائل بھی سن لیں گے۔

پراسیکیوٹر نیب ذیشان مسعود نے اپنے دلائل میں کہا کہ چیئرمین نیب نے ڈاکٹر بابر اعوان اور دیگر 6 کے خلاف ریفرنس دائر کیا اور ریفرنس دائر کرنے سے پہلے وزارت قانون سے پوچھا گیا تھا۔

انہوں ںے کہا کہ وزارت قانون کے جواب میں ذمہ داران میں بابر اعوان کا تیسرا نمبر ہے اور بابر اعوان کی وزارت سے پہلے وزارت قانون نے سمری کو اپروو کیا تھا۔ وزارت نے اپروول کے ساتھ لکھا کہ کام شروع کیا جائے جب کہ اٹارنی جنرل نے بھی وہی سمری منظور کی۔

ذیشان مسعود نے دلائل دیے کہ اپروول کے بعد وزارت قانون اور خزانہ کی جانب سے حکومتی گارنٹی فام پر دستخط کیے جانے تھے۔ وزارت خزانہ نے گارنٹی فارم پر دستخط کر دیے لیکن وزارت قانون نے نہیں کیے تھے اور بابر اعوان کی وزارت کے دوران فارم پر دستخط میں ایک سال کی تاخیر کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل شروع ہو گا تو عدالت کو آگاہ کریں گے کہ ملزمان کے بیانات ایک دوسرے کے ہی خلاف ہیں۔ بابر اعوان کے دور میں چار بار سمری وزارت قانون کو بھیجی گئی لیکن اس میں تاخیر کی گئی۔

پراسیکیورٹر نیب نے دلائل دیے کہ وزیراعظم آفس نے وزارت قانون کو میمورنڈم جاری کیا لیکن وزارت قانون نے جواب دیا کہ وزارت اس وقت جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور بابر اعوان کی وزارت کے بعد وزارت قانون کی جانب سے تعاون شروع کیا گیا۔


متعلقہ خبریں