فاطمہ ثریا بجیا کو گزرے تین برس ہوگئے


معروف ادیبہ اور ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا کو ہم سے بچھڑے تین برس گزر گئے لیکن وہ آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 

معروف مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا نا صرف ڈرامہ نگار و مصنف تھیں بلکہ وہ انسانی ہمدردی کا بھرپور جزبہ رکھنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے ناصرف  ریڈیو، اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے لیے کام کیا بلکہ فلاحی کاموں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔

14 برس کی عمر میں  ناول  ‘قلم سے رشتہ’ شائع ہوا

14 برس کی عمر میں ان کا  ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ناول  ‘قلم سے رشتہ’ شائع ہوا۔ جس کے بعد انہوں اپنے قلم کی طاقت سے  ٹیلی ویژن کی دنیا میں بھرپور شہرت حاصل کی۔

 بجیا کا پہلا ڈرامہ ‘قصہ چہار درویش’ تھا

فاطمہ ثریا بجیا کا پہلا ڈرامہ ‘قصہ چہار درویش’ تھا۔ بجیاپاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشنسے بھی کئی سال تک وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں.

ان خدمات کے عوض انہیں 1999 میں جاپان کے شہنشاہ کی طرف سے خصوصی طور پر ایوارڈ بھی دیا گیا.

10 فروری 2016 کو گلے کے کینسر کے باعث فاطمہ ثریا بجیا جیسا ادب کی دنیا کا ایک درخشاں ستارہ اپنی تمام ترآب وتاب کے ساتھ  ضوفشاں ہوگیا. ادب سے وابسطہ ہر شخص فاطمہ ثریا بجیا کی کمی آج بھی محسوس کرتا ہے۔


متعلقہ خبریں