عمارتوں کا انہدام: میئر کراچی کا نظرثانی اپیل کا مشورہ



کراچی: میئر کراچی وسیم اختر نے حکومت سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ عمارتیں گرانے کے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر عملدرآمد کو روکے اور فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرے۔

شہرقائد میں وفاقی وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میئر کراچی نے کہا کہ  سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے شادی ہالوں کو مسمار کرنے کا کہا گیا ہے لیکن شہریوں کی بکنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ  لوگوں کے بچوں کی شادیاں ہونی ہیں اور جب تک متبادل جگہ نہ فراہم کی جائے اس وقت تک کارروائی نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اگر 525 کچی بستیاں اور گوٹھ اسکیم ریگولرائز ہو سکتے ہیں تو یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہوسکتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے فٹ پاتھوں اور نالوں پر کارروائی کے احکامات تھے جو ہم نے پورے کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب میں حکومت سندھ سے التماس کرتا ہوں کہ 500 عمارات کے انہدام کرنے کے حکم نامے پر عملدرآمد روکا جائے۔

انہوں نے درخواست کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

’کچھ لوگ سیاسی طور پر بھی 40 سال پہلے والا کراچی بنانا چاہتے ہیں‘

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ اور وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی کو 40 سال پہلے والا کراچی بنانے کی خواہش ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ سیاسی طور پر بھی 40 سال پہلے والا کراچی بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں 500 عمارتوں کو گرانے کا حکم آیا ہے لیکن پہلے ان عمارتوں کی تحقیقات کرائی جائیں کہ وہ غیرقانونی ہیں یا نہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپیل کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی زیر نگرانی ایک کمیٹی بنائی جائے جو 40 سال کا احتساب کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مئیر کراچی نے کہا ہے کہ اگر گھر گرانے کی بات ہوئی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔

وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ 500 عمارتوں کے بارے میں تحقیقات شروع کی گئیں تو ان کے بڑے نام سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ منظور کاکا سے پوچھیں کہ عمارتیں کیسے تعمیر ہوتی ہیں؟

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے اظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو لوٹ کا مال سمھجا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج آپ کو سندھ کے حکومتی اداروں میں شہری علاقے کا ایک شخص نظر نہیں آئے گا۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر آج یہ عمارتیں گرائی گئیں تو غیر قانونی تعمیر کرنے والوں کا تو کچھ بھی نہیں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی کی زمینوں سمیت متعدد دیگر زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے تو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ گوٹھ آباد اسکیم کے تحت زمین بیچنے کا منصوبہ بنایا گیا اس پر بھی توجہ دی جائے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اس حوالے سے اراکین اسمبلی پرمشتمل کمیٹی بنا رہے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ ہم بھی کراچی سے تجاوزات کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہاکس بے کی زمین پر قبضہ کیا گیا تو اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ آج کراچی کی 500 عمارتوں کو گرانے کا حکم آیا ہے تو عدالت کا حکم سرآنکھوں پر مگر اس بات کی بھی تو تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ان عمارات کی تعمیر کے احکامات کس نے دیے تھے؟

پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت کے سربراہ نے واضح کیا کہ اگر ان عمارتوں کو گرایا گیا تو بنانے والوں اور بنانے کی اجازت دینے والوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ عمارتیں بنانے والے فروخت کرکے چلے گئے اور اجازت دینے والے رشوت لے کر نکل گئے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے زور دے کر کہا کہ شہر میں قائم کچی آبادیوں کو بھی دیکھا جائے جہاں سے جرائم پلتا ہے اورگوٹھ آباد کے تحت بنائے جانے والی گوٹھوں کو بھی دیکھا جائے۔

ان کا استفسار تھا کہ پاکستان میں دیہی اور شہری کوٹہ سسٹم صرف سندھ میں کیوں نافذ ہے؟


متعلقہ خبریں