اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ ڈیم نہ بنا اور زلزلہ متاثرین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو میں لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر احتجاج کروں گا۔
سپریم کورٹ میں زلزلہ متاثرین امداد کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ زلزلے کے بعد لٹے پٹے لوگوں کی امداد پوری دنیا سے کی گئی تھی، دینے والے ہاتھ پل بھر میں لینے والے بن گئے تھے۔ متاثرین پر ایٹم بم نہیں گرا تھا قدرتی آفت آئی تھی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ امدادی رقم حکومت کے پاس امانت تھی اور اس وقت کی حکومت نے متاثرین کی امانت میں خیانت کی تھی۔ ٹین کی چھتوں تلے آج کی سردی میں رہنما ممکن نہیں ہے جب کہ متاثرہ علاقوں میں اسکول اور اسپتال بھی نہیں ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سیشن جج کی رپورٹ بھجوائی گئی تھی لیکن کچھ نہ ہوا۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مؤقف اختیار کیا کہ میری کل رات وزیر اعظم سے بات ہوئی ہے اُن کو رپورٹ کے بارے میں علم نہیں تھا۔ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دیں ہم مکمل جواب دیں گے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وفاقی کابینہ خود بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کا پیسہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ملتان میٹرو بس پر خر چ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن کو خیبر پختونخوا سے زیادہ محبت ملی ان کو اس صوبے کا خیال ہی نہیں ہے۔ حکومت زلزلہ متاثرین کے لیے دیا گیا پیسہ ایسے استعمال نہیں کر سکتی ہے۔
سیکرٹری خزانہ عارف خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رواں مالی سال میں زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لئے آٹھ ارب سے زائد رقم مختص کی گئی تھی لیکن بعد میں اس کو کم کر کے سات ارب تک محدود کیا گیا تاہم ہمیں مزید ایک ہفتے کا وقت دیں جامع رپورٹ دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپریل میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو وہاں جماعت اسلامی اور جماعت الدعوۃ کے میڈیکل کیمپ لگے ہوئے نظر آئے۔ متاثرہ علاقوں میں حکومت نے کون کون سے منصوبے مکمل کیے ہیں اس کی رپورٹ دی جائے۔ بالاکوٹ نیو سٹی تعمیر کے فنڈز کہاں اور کیوں بھیجے گئے۔
چیف جسٹس نے ایرا کے سربراہ جنرل عمر حیات کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔