پی ٹی آئی کو حکومتی نظام سمجھنے میں دو سال لگیں گے، ایم ضیا الدین


اسلام آباد: سینئر تجزیہ کار ایم ضیا الدین نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے کبھی وفاقی سطح پر حکومت نہیں کی اس لیے انہیں نظام کو سمجھنے میں دو سال لگیں گے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے 100 روزہ پلان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے سو دن میں کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی پالیسیاں بنانا آسان کام ہے لیکن جب عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو اصل مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 0.1 فیصد ٹیکس دیتا ہے۔ جب حکومت کے پاس پیسے نہٰں ہوں گے تو پالیسیوں پر عمل درآمد کیسے ہو گا۔

ضیاالدین کا کہنا تھا کہ ابھی تک قومی اسمبلی کی کمیٹیاں بھی ابھی تک نہیں بنیں۔ سینیٹ میں بھی حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے، اس وجہ سے ابھی تک قانون سازی نہیں ہو سکی۔ حکومت کو دو ڈھائی سال کا وقت ملنا چاہیے اس کے بعد ان کی کارکردگی پر تبصرہ ہو سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے 26 ممالک کے ساتھ ٹیکس کی معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے باوجود صرف 11 ارب ڈالر کا پتا چلا ہے جسے واپس لانے کے لیے ہر ملک میں جا کر وہاں کے قوانین کے تحت کیس لڑنا پڑے گا جسے مکمل ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کو قابو میں لانے کے لیے دیانتدار عدلیہ، مضبوط پارلیمنٹ اور غیرجانبدار میڈیا چاہیئے۔

خیبرپختونخوا میں پولیس اصلاحات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ  پنجاب ایک پیچیدہ معاشرہ ہے جس میں پولیس اصلاحات لانا بہت مشکل کام  ہے۔ عمران ایک مخلص رہنما ہے لیکن انہیں ایک ٹیم چاہیئے، انہیں پاکستان کے مسائل کو فیڈریشن کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنا ہو گا، صدارتی طرز حکومت سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

پروگرام میں شریک تجزیہ کار شوکت پراچہ نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے قانون سازی نہیں ہو سکی کیونکہ سینیٹ میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔

حکومت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرتارپور ڈپلومیسی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہیئے، 100 روز میں صرف سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

شوکت پراچہ نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لیے آئین کی کئی شقوں میں ترامیم ضروری ہیں لیکن اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نہیں رہا۔

پارلیمانی نظام کی حمایت میں ان کا کہنا تھا کہ ہم چار وفاقی یونٹس ہیں، ہمارے لیے پارلیمانی نظام درست ہے، 18 ویں ترمیم پاکستان کو بہت مشکل سے حاصل ہوئی ہے اسے ختم نہیں کرنا چاہیئے۔

تجزیہ کار شکیل رامے نے کہا کہ معیشت میں مختصر مدت کے جو چیلنج درپیش تھے انہیں کامیابی سے پورا کیا گیا۔ مختلف کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آ رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کا اثر دنیا میں ہم سے زیادہ ہے وہاں 2006 میں منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس لانے کے لیے قانون بنایا گیا، اس کے باوجود بارہ سالوں میں وہ صرف چار کروڑ روپیہ واپس لا سکے ہیں۔

شکیل رامے نے کہا کہ جمہوریت کا معیشت کے مضبوط ہونے کا گہرا تعلق ہے۔ ہم آتے تو جمہوری طریقے سے ہیں لیکن بعد میں آمر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔


متعلقہ خبریں