پاکستان دہشت گردی کے خلاف کثیرالجہتی جنگ لڑ رہا ہے، عامر ضیاء



اسلام آباد: ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان اور سینئر صحافی عامر ضیاء کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بہت سی جہتیں ہیں، اس غیرروایتی جنگ کی کئی شکلیں اور انداز ہیں۔ کہیں یہ جنگ فرقہ واریت کی شکل میں سامنے آ رہی ہے تو کہیں اس کے لیے مذہب کے مقدس نام کو استعمال کیا جا رہا ہے اور کسی جگہ صوبائیت یا لسانیت کے پردے میں قتل و غارت کی جا رہی ہے۔

پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں شریک معروف تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتے کے لیے ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنا، اپنی صلاحیت بڑھانا اور اپنا فوکس برقرار رکھنا ضروری ہے لیکن ہم نے اس تینوں معاملات پر غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف ہم نے ایک ایجنڈا بنایا تھا لیکن اسے ترک کر دیا گیا، اگر مسلح افراد چینی قونصلیت میں داخل ہو جاتے تو بہت نقصان ہوتا، ان کا وہاں پہنچ جانا بھی انٹیلی جنس کی کوتاہی ہے۔

ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ دہشت گردی کا تازہ واقعہ ایک تنبیہ ہے کہ مستقبل میں چینی باشندوں اور ان کی عمارتوں کو خظرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مذہب، فرقہ، زبان اور نسل کی بنیاد پر انتہاپسندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دونوں دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب پچھلے سال انہوں نے دھرنا دیا تھا تو حکومت نے ان کے ساتھ جھک کر معاہدہ کیا، دوسری بار بھی انہوں نے تین دن سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کیا، یہ ریاست کی کمزوری ہے۔

پروگرام میں شریک مہمان ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ یہ ہمارا کلچر ہے کہ جب بھی ہمارے اوپر مصیبت آتی ہے تو ہم متحرک ہو جاتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے ہر نکتے پر ہمیں ایک ٹاسک فورس بنانے کی ضرورت تھی جو مسلسل پارلیمنٹ کو جواب دیتی۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر ہماری کارکردگی 50 فیصد بھی نہیں ہے۔ جو کام فوج کے سپرد کیا گیا وہ تو بہت حد تک ہو گیا لیکن سول ادارے اس حوالے سے مکمل ناکام رہے۔

شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ را کے افراد کراچی سے لوگوں کو بھارت لے جا کر ان کی تربیت کر رہے ہیں، چینی قونصلیٹ پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کا بھارت میں علاج ہو رہا ہے۔ باہر کی ایجنسیاں ہمارے ہی لوگوں کو استعمال کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیکٹا میں تمام ایجنسیوں کی انٹیلی جنس رپورٹس کو اکٹھا کرنا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ انٹیلی جنس کو مضبوط کرنا نیشنل ایکشن پلان کا  اہم حصہ تھا۔

پروگرام کے تیسرے مہمان اکرام سہگل کا کہنا تھا کہ جب تک آپ کے سامنے مقاصد واضح نہیں ہوں گے کچھ نہیں ہو گا۔ ریاست کو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہیئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی جنگ کا حصہ ہیں جس میں باقاعدہ فوجوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی، سوشل میڈیا کا استعمال اور پراپیگنڈا ایک اہم حصہ ہیں، اس کے خلاف کام کرنا ایک ادارے کا کام نہیں۔

اکرام سہگل نے کہا کہ ہمیں کسی طور خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے، ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور ان کے وزیردفاع نے پاکستان کو کھلی دھمکیاں دی ہیں۔ ریاست کے تمام اداروں کو متحد ہو کر جواب دینا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ بی بی سی اور سی این این جیسے ادارے بھی آزاد نہیں ہیں، وہ جعلی خبریں نہیں دیتے بلکہ خبر کو ایک مخصوص زاویہ دے دیتے ہیں، امریکہ اور برطانیہ میں بھی ریاستی مفاد کے خلاف بات نہیں ہو سکتی۔

 

 

 


متعلقہ خبریں