سیاست، صحافت اور جوتے

آوازہ

برادر محترم خورشید احمد ندیم شاعر نہیں ہیں لیکن اُن کی مناجات میں خواجہ الطاف حسین حالی جیسا درد پیدا ہوگیا ہے،بس، یہی کہنے کی کسر رہ گئی تھی کہ سیاست پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے ورنہ تہمد اور بوٹ تک تو وہ پہنچ ہی گئے ہیں اور اب انھیں یہ خوف لاحق ہے کہ شرم کی وہ اوٹ جسے ازراہِ مروت وہ تہمد قرار دیتے ہیں، ذرا ڈھیلا ہوا تو جانے کس کس کے عیب سرِ راہ کھل جائیں۔ خورشید احمد ندیم جیسے نفیس اور سنجیدہ اصحابِ فکر کی گفتگو میں شہر آشوب کی ایسی کیفیت پیدا ہوجائے تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوجانا چاہئے۔ حالات کی سنگینی کی ایک سطح یہ ہے جس میں روسی رہنما خروشچیف کی طرح جوتا پاؤں سے نکل کرگفتگو کا حصہ بن جائے، خروشچیف تا فیصل واؤڈا یہ معاملہ سیاست دانوں تک محدود ہے لیکن اس معاملے کی ایک صورت اس سے نسبتاً مختلف ہے۔

برادرِ محترم مظہر عباس سے میرا نیاز مندی کا رشتہ ہے۔ صحافت میں وہ مجھ سے بہت سینئر ہیں، اگر چہ دونوں کے درمیان نظریات کے معاملے میں کچھ فاصلہ بھی ہے لیکن مجھے یہ تسلیم کرنے میں کبھی عار نہیں رہا کہ بالواسطہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، یوں میرے لیے وہ بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعلق کی ایک نوعیت برادر عزیز سلیم صافی سے ہے، انھوں نے اپنی خداداد صلاحیت اور محنت شاقہ سے گزشتہ ڈیڑھ دو دہائی کے دوران صحافت میں غیر معمولی مقام بنایا۔ دھوپ چھاؤں اپنی جگہ لیکن وہ ہمیشہ متواضع رہتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی کہا کرتے ہیں ہم لوگوں نے آپ لوگوں سے لکھنا سیکھا، یہ ان کی محبت اور کشادہ ظرفی ہے ورنہ وہ تو خود استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔

حیرت ہونی چاہئے کہ گفتگو میں جوتم پیزاری کے معاملے میں ان دو شائستہ اور نفیس لوگوں کا ذکر کہا ں سے آگیا؟ یہ حیرت درست ہے لیکن موضوع کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ بقولِ غالب بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بات جب مکمل ہو گی، میرے یہ دونوں بھائی بھی یقینا میرے ہم خیال بن جائیں گے۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہنا چاہئے کہ میں نے مظہر عباس اور سلیم صافی کی مثالیں نہایت سوچ سمجھ کر اس لیے اختیار کی ہیں کہ یہاں مسئلہ زیادہ سنگین نہیں نیز دلیل کے ساتھ بات بھی ہو سکتی ہے، ورنہ تحریر سے آواز تک ہماری صحافت میں ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں جن کے خیال ہی سے کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔

ابھی دو ایک روز ہوتے ہیں، برادرم سلیم صافی نے اپنے ایک کالم میں میاں نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے، ان کے لیے کینہ پرور کے الفاظ استعمال کیے۔ کچھ عرصہ قبل مظہر بھائی نے بھی میاں صاحب کی مزاجی کیفیات کی وضاحت کے لیے اپنی گفتگو میں ان ہی الفاظ کا انتخاب کیا۔ لغت میں ان الفاظ کا مطلب ہے، دشمنی رکھنے والا، بیری یا دشمن۔ کچھ جگہوں پر اس کا مطلب بغض بھی بتایا گیا ہے۔ لکھنے والا جو کوئی بھی ہو،اگر وہ کسی شخص کی ایسی کیفیات کو بیان کرنا چاہے تو وہ ان میں سے کوئی ترکیب بھی استعمال کرسکتا ہے لیکن تہذیبی شعور ہمیں بتاتا ہے کہ جب ہم دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر کینہ پروری جیسے لفظ استعمال کرتے ہیں تو بیان کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، یعنی معاملہ قریب قریب گالی تک جا پہنچتا ہے۔ کیا سلیم صافی اور مظہر عباس میاں صاحب کو گالی دینا چاہتے ہوں گے؟ جیسا میں ان دونوں کے مزاج کو سمجھتا ہوں، یہ ناممکن ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ الفاظ و تراکیب کی تفہیم کا مسئلہ ہے اور تفہیمی معاملات ہمیشہ ذاتی ہوتے ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہئے لیکن اس احترام کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بحث ضرور کی جا سکتی ہے کہ منتخب کردہ الفاظ اور طرز گفتگو معاشرے پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ساٹھ کی دہائی میں جب کچھ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کے صدارتی انتخاب کے موقع پر بعض اخبارات کی سرکولیشن میں اچانک نمایاں کمی رونما ہوئی اور انتخابات میں بھی عوام کی دلچسپی میں کمی دیکھنے میں آئی تو رائے عامہ اور رجحانات کے بننے اور بگڑنے کے موضوعات پر کام کرنے والے سماجی سائنس دانوں نے اس موضوع پر کام کیا۔ تحقیق کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ نتیجہ ان تحقیقات کا بڑا دلچسپ نکلا۔ ان سائنس دانوں نے بتایا کہ جب ذرائع ابلاغ سیاست دانوں کی اپنے مخالفین کے بارے میں نامناسب اسلوب میں کی ہوئی گفتگو جوں کی توں اپنے صارفین (قارئین، سامعین وغیرہ) تک منتقل کر دیتے ہیں یا از خود زیر بحث افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کریں جنھیں نرم ترین الفاظ میں غیر پارلیمانی کہا جا سکتا ہو تو معاشرے میں میڈیا ملیس (Media Malaise) پیدا ہو جاتا ہے (میں نے اس اصطلاح کا ترجمہ ابلاغی اضطراب کیا ہے)۔

ابلاغی اضطراب کے دو فوری نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اوّل، جو ذریعہ ابلاغ ایسی گفتگو کے فروغ کا ذریعہ بنے، اس سے لوگ فاصلہ کرنا شروع ہوجاتے ہیں جو ظاہر ہے کہ اس ادارے کی معاشی تباہی کا نکتہ آغاز بن جاتا ہے۔ دوسرے، ملک کے آئینی، سیاسی اداروں اور سیاسی شخصیات پر اس انداز تکلم کے نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ ان اداروں پر عوام کا اعتماد کمزور ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں انتخابی عمل میں عوام کی دلچسپی میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلنا پسند نہیں کرتے۔

کاش، ان موضوعات پر پاکستان میں بھی کچھ کام ہو پاتا لیکن اگر مغربی تحقیق کی روشنی میں پاکستانی صحافت اور سیاست کی زبوں حالی کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی وجوہات کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں سیاست اگر گالی کا متبادل ہے اور صحافی بہت بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ وہ چلن بھی ہے جو ان دونوں شعبوں میں اختیار کیا گیا۔ ہم بہت فکر مند ہیں کہ سیاست بے توقیر اور صحافت کی جڑیں کیوں کھوکھلی ہوئی جاتی ہیں؟ یہ فکر مندی بجا لیکن اس فکر کے ساتھ اب ہمیں ایک فکر اور بھی پال لینی چاہئے کہ دراصل یہ ہمارا اپنا ہی چلن ہے جس نے قومی زندگی اور آزادی اظہار کے مقدس حق کی مٹی پلید کر کے معاملات کو یہاں تک پہنچا دیا۔ یہ بحث طویل ہے اوربہت سے چشم کشا پہلو اپنے اندر رکھتی ہے جس پر متوجہ ہوئے بغیر ہمارے آزار کا چارہ ممکن نہیں۔

ٹاپ اسٹوریز