ایک عزیز دوست نے سوال کیا کہ علی قاسمی کو جانتے ہو؟ ذرا توقف کے بعد وضاحت کی کہ وہی علی قاسمی جو عطاالحق قاسمی کے فرزند ہیں۔اسی ہلے میں انھوں نے اطلاع دی کہ یہ نوجوان بھی ترقی پسندوں کے مظاہرے میں پائے گئے، لال قمیص پہن کر، یقینا لال لال لہرائے گا جیسے نعرے بھی لگائے ہوں گے۔ ممکن ہے، وہ ابھی کچھ مزید بھی کہتے لیکن میں نے سوال کر دیا کہ پھر؟ ”پھر کیا؟ تبصرہ کیجئے“۔کس بات پر تبصرہ؟ فرمایا، اس بات پر کہ دائیں بازو کے قاسمی صاحب کا لخت جگر بائیں بازو والوں کے ہجوم میں دیکھا گیا۔ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ واقعہ کے راوی شہید محمد صلاح الدین ہیں۔
کوئی تیس پینتیس برس ہوتے ہوں گے، چین کے ایک سفر میں صلاح الدین صاحب اور قاسمی صاحب ہم سفر تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے اپنے وفد کے ہمراہ چین کی خوب سیر کی۔ بڑے بڑے شہروں میں گئے اور جہاں موقع ملا، اس کے گلی کوچوں میں گھس کربھی لوگوں کو دیکھا اور جانچا، ان کے چال چلن کا اندازہ لگایا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ چین جسے دنیا سے مختلف سمجھا جاتا ہے، وہ اتنا مختلف کیوں ہے؟ واضح رہے کہ یہ باتیں اُس زمانے کی ہیں جب چین ابھی پرانا تھا، آج والا چین نہ تھا جس کی معیشت سے دنیا آج لرزہ براندام ہے۔ واپسی کے سفر میں ایک اتفاق یہ ہوا کہ جہاز میں بھی ان دونوں کی نشستیں ساتھ ساتھ تھیں۔ مسافروں کے درمیان جیسا ہوتا ہے، سفر کے اختتام پر گھر روانگی کی تھوڑی خوشی، اجنبی دیس سے کوچ کا ذرا سا افسوس اور کچھ مشاہدات کی گرم جوشی، یہ سب کیفیات گفتگو میں دھیرے دھیرے داخل ہوتی ہیں اور مسافر اپنے دل کی باتیں ایک دوسرے کے سامنے دھرانے لگتے ہیں۔ بس، کچھ ایسی ہی کیفیت رہی ہوگی جس میں قاسمی صاحب نے اپنے ہم سفر کا کاندھا سہلا کر کہا:
”صلاح الدین صاحب!مجھے تو ایسا لگتا ہے، آپ جس اسلام کی بات کرتے ہیں، اسے ہم نے چین میں دیکھ لیا“۔
تبصرے کی فرمائش پر یہ تمام واقعہ لمحے بھر میرے ذہن میں تازہ ہوا لیکن میں نے اسے دہرانے کے بجائے یہ کہنا مناسب جانا کہ اگر مجھے موقع ملتا تو میں خود اس مظاہرے میں شریک ہو جاتا۔ یہ جواب گویا ایک تازیانہ تھا جسے اس دوست نے اپنی پیٹھ پر برداشت کیا۔ انھیں ہرگز توقع نہ تھی کہ وہ جس شخص کے ماتھے پر انھوں نے ایک زمانے سے دائیں بازو والے کی مہر ثبت کر رکھی ہے، اُس کی زبان سے ایسی بات بھی برآمد ہو سکتی ہے۔ اس حیرت میں وہ کچھ ایسے غلط بھی نہ تھے۔
پاکستان میں دائیں اور بائیں کی تفریق زیادہ پرانی نہیں۔ اس تفریق کے بہت سے بدصورت مظاہر ہماری ہی نہیں، ہمارے سے بعد والی نسل نے بھی دیکھ رکھے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دائیں اور بائیں والوں کے درمیان کہی اور ان کہی دشمنی کا ایک ایسا فاصلہ ہے جس کی وجہ سے ہزاروں نہیں لاکھوں حق داروں کے حق مارے گئے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو بقول فیض صاحب تاریک راہوں میں مارے گئے یعنی ایک دوسرے کے ہاتھوں لقمہ اجل بن کر شہادت کی ایک ایسی معراج پر پہنچے جسے فریقِ مخالف کے ہاں کوئی شرف اور کوئی مرتبہ نہ مل سکا۔ دکھ کی کوئی ایسی ہی کیفت رہی ہوگی جس میں استاد محترم پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ نے اپنے اداریے میں بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ لکھا کہ یہ جو طلبہ کے درمیان ”شہید شماری“ کے مقابلے شروع ہو چکے ہیں، کاش کہ کوئی ان کا خاتمہ کر سکے۔
ان بدقسمت واقعات کی تفصیل کچھ ایسی دل فگار ہے کہ کوئی دل جلا اسے بیان کرنے پر آئے تو ہر طرف کے دلوں میں آگ دہکتی چلی جائے۔ یہ پس منظر جن کے علم میں ہے، وہ اگر کسی دائیں بازو والے سے سنیں کہ اسے بائیں بازو والوں کے لال پہناووں اور لال و لال نعروں کی دھمک سے کوئی پریشانی نہیں بلکہ وہ اس میں شرکت پر بھی آمادہ ہے تو اس کی حیرت قابل فہم ہے۔
دائیں اور بائیں کی یہی آویزش تھی جس کے ردعمل میں بعضے کہا جاتا کہ ایشیا سرخ ہے اور نہ سبز، اس کے بعد ایک ایسی پھبتی کسی جاتی جس میں ایک ناگوار انسانی کیفیت کا ذکر ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسے پھبتی نما نعرے مسخرے پن میں ہی لگائے جاتے تھے لیکن ہماری نسل نے جامعہ کراچی میں اسی پھکڑ پن پر یقین رکھنے والوں کے غول کے غول دیکھے۔ ماضی میں دائیں بائیں کی آویزش میں کبھی کبھار تشدد کے بدصورت واقعات رونما ہو جایا کرتے تھے لیکن اس مخلوق کے زور پکڑنے کے بعد تو یہ روز کا معمول بن گئے۔
ہم نے یہ اپنی بدقسمت آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس مخلوق نے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین طلبہ کو اغوا کر کے جمنازیم میں بند کر دیا۔ اس کے بعد کی کہانی بیان کرنے کے لیے حوصلہ چاہئے۔ بعد میں جب یہ عمارت واگذار ہوئی تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جمنازیم کی چاروں دیواروں کے ساتھ فرش پر خون کی ایسی لکیروں کا جنگل تھا جیسے کھیل کے کسی میدان کے چاروں طرف دوڑنے والوں کے پاؤں کے نشانات سے بنتی ہیں۔ بتایا گیا کہ قاتلوں کے ہاتھ میں آتشیں اسلحہ تھا اور وہ مغویوں کو گولیا ں مارتے جاتے تھے اور دوڑنے پر مجبور کرتے جاتے تھے۔ یہ قاتل وہی لوگ تھے جنھیں ایشیا کے سرخ اور سبز ہونے پر اعتراض تھا۔
یہ عین وہی زمانہ تھا جس دائیں اور بائیں کی تقسیم میں منقسم لوگ پسپا ہوتے چلے گئے اور غیر انسانی تشدد پر یقین رکھنے والوں کا بول بالا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ معاشرے کو غیر سیاسی کرنے کے تجربے کا ایک ٹیسٹ کیس تھا جس کی بدترین شکل بعد کے برسوں میں دیکھی گئی اور سیاست میں ماں بہن کا احترام ہی نہیں گیا،قومی مقاصد بھی داؤ پر لگا دیے گئے۔اب ان کیفیات کا نکتہ عروج حریم شاہی ٹک ٹاک میں دکھائی دیتا ہے جس سے لگتا ہے کہ پورا معاشرہ ہی غیر سنجیدہ ہو چکا ہے اور عقل و خرد کی باتیں کرنے والے آنکھ میں ڈالنے کو نہیں ملتے۔
اگر ترقی پسندوں کا یہ نعرہ آزادی اسی غیر سنجیدگی کا ردعمل ہے تو میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ لال پرچم لہرانے والوں کے شانہ بشانہ سبز پرچم والے بھی آن کھڑے ہوں گے اور ایک نئی قوت کے ساتھ نظریاتی سیاست کے چراغ روشن کریں گے۔ میرا یہ خواب اپنی جگہ لیکن پہل کا ثواب تو بائیں بازو والے بہرحال لے جا چکے۔