احوال ایک ملاقات کا

صدر کی آفر پر میں نے عمران خان کو منع کیا، پھر عارف علوی کو بنایا گیا، پرویز خٹک

مولانا فضل الرحمان اپنے قافلے سمیت اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، گزشتہ ایک ماہ سے ان کے مجوزہ مارچ نے ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا سے لے کر دانشوروں کے ذہنوں تک اسقدر دھول اڑائی ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر سے بلند ہوتی آہ و فریاد کا دھواں اور وطن عزیز پر چھائے مسائل کے سیاہ بادل اس میں چھپ کر رہ گئے ہیں۔ ہر طرف بلند آواز تخمینوں، پرشور پیشین گوئیوں اور تکرار سے بھرپور تجزیوں کی بازگشت سکرین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کر رہی ہے۔

2018 کے انتخابات میں بری طرح شکست کھا کر ملکی سیاست کی کتاب کے حاشیوں تک محدود ہو جانے والے مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کا داؤ کچھ اس طرح کھیلا ہے کہ وہ اس منظرنامے کے مرکزی کردار بن گئے ہیں۔ کرپشن کے الزامات میں گھرے اور جیلوں کی سلاخوں سے جڑے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی ان کے دامن کا ایک ایک کونا اس امید میں تھام لیا ہے کہ شاید اس جہاندیدہ ساحر کے جادوئی لمس سے ان کی تقدیر میں لکھے ادبار کے دن اختتام کو پہنچ جائیں۔

حالت یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن نہ چاہتے ہوئے بھی کھل کر ان کی مخالفت کرنے سے قاصر ہے اور ترقی پسندی کو اپنے ماتھے کا جھومر قرار دینے والی پیپلزپارٹی بھی ان کی سیاسی چھاؤں میں سستانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اگرچہ مولانا کو شکوہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے نیم دلی سے ان کا ساتھ دیا ہے اور زبانی کلامی بہت دعوے کرنے کے باوجود عمل کی کسوٹی پر کھوٹی اتری ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حزب اختلاف کی سب سے توانا آواز بن کر ابھرے ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت بھی نہ نہ کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر تیار ہو گئی۔

اس کمیٹی کی سربراہی وزیردفاع پرویز خٹک کے پاس ہے۔ آج اس کمیٹی نے مختلف ٹی وی اینکرز کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی میزبانی میں ملاقات کی دعوت دی۔ اس موقع پر کمیٹی کے دیگر اراکین کے علاوہ وزیرتعلیم شفقت محمود، سابق وزیرخزانہ اسد عمر، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان بھی موجود تھیں۔ ملاقات کا مقصد ٹی وی اینکرز کو حکومتی نکتہ نظر سے آگاہ کرنا تھا۔

پرویز خٹک نے بتایا کہ حکومتی کمیٹی صرف دو بار حزب اختلاف کی قائم کردہ کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھی ہے جس میں احسن اقبال اور نئیر حسین بخاری بھی اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں جلسے کے لیے مقام کا انتخاب زیربحث آیا تاہم فریقین کسی سمجھوتے تک نہ پہنچ سکے۔ اس کے بعد جمیعت علمائے اسلام ف کے رہنما اکرم خان درانی اور پرویز خٹک ایک دوسرے سے فون پر روابط کرتے رہے۔

پرویز خٹک کے مطابق حکومتی موقف تھا کہ فیض آباد دھرنے کے موقع پر اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ دیا تھا کہ اس قسم کے تمام اجتماعات پیریڈ گراؤنڈ میں منعقد ہوا کریں گے۔ مگر حزب اختلاف کا کہنا تھا انہیں پشاور موڑ کے قریب کھلا میدان چاہیئے جو آخرکار انہیں مہیا کر دیا گیا۔

جب اینکرز نے مولانا فضل الرحمان کے ان مطالبات کے متعلق دریافت کیا جو وہ مختلف ٹاک شوز اور اپنی تقاریر میں بتاتے رہے ہیں تو حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے بتایا کہ مذاکرات کے دوران جلسے کے مقام کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہوئی۔ حزب اختلاف کی کمیٹی نے ابھی تک کوئی مطالبہ ان کے سامنے نہیں رکھا۔

جب پرویز خٹک سے ہم نے پوچھا کہ حکومت نے مولانا سے ان کے حقیقی مطالبات کے متعلق کوئی بات کیوں نہیں کی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے مختلف مواقع پر اس بارے میں پوچھا تو وہ کسی اور موضوع پر بات کرنے سے ہچکچا رہے تھے اور انہوں نے بس یہی کہا کہ وہ جلسے کے مقام پر پہنچ کر اس حوالے سے بات کریں گے۔

کمرے میں موجود تمام اینکرز نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کس قسم کے مذاکرات تھے جس میں مولانا کی طرف سے کوئی مطالبات نہیں رکھے گئے اور حکومت نے بھی ان سے پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ جب مولانا فضل الرحمان ٹی وی پر مسلسل اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں تو مذاکرات میں اس موضوع پر بات کیوں نہیں کی گئی؟ جواب میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ انہوں نے جلسے کے مقام کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی وزیراعظم کے استعفیٰ کا ذکر ہوا اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات کا تذکرہ چھڑا۔

وفاقی وزیرتعلیم نے اس موقع پر مداخلت کی اور کہا کہ اگلے انتخابات 2023 میں ہی ہوں گے اور پی ٹی آئی وہ بھی جیتے گی۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم مولانا کی جلسے میں تقاریر سنیں گے تاکہ علم ہو سکے کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔ میں نے سوال پوچھا کہ آپ مولانا کی تقاریر کس طرح سنیں گے جبکہ نیوز چینلز انہیں نشر نہیں کر ہے تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ ہم نے میڈیا پر کسی قسم کی سنسر شپ عائد نہیں کی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ان کے علم میں ہے تو میڈیا پر مولانا کی تقاریر چل رہی ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھا گیا کہ اگر بہت بڑی تعداد میں لوگ مولانا کے ساتھ آ گئے اور گراؤنڈ چھوٹا پڑ گیا تو پھر کیا ہو گا؟ ان کا جواب تھا کہ انتظامیہ نے ساتھ والے پلاٹس پر بھی انتظامات کیے ہیں تاکہ لوگوں کی تعداد بڑھ جائے تب بھی کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ میدان سے منسلک پلاٹس کار پارکنگ کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

اس موقع پر پرویز خٹک نے واضح کیا کہ اگرچہ مذاکرات حکومتی کمیٹی نے کیے تھے لیکن معاہدہ رہبر کمیٹی اور اسلام آباد کی انتظامیہ کے درمیان ہوا ہے۔ حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر جلسے کے شرکا تشدد پر اتر آئے تو انتظامیہ ہی اس سے نمٹنے کا فیصلہ کرے گی۔

حکومتی وزرا بہت پرامید تھے کہ مولانا فضل الرحمان ایک زیرک سیاست دان ہیں اور وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے۔ ان کا نکتہ نظر تھا کہ مولانا نے معاہدہ کیا ہے، وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور جلسے کے شرکاء ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے اور کس قسم کی توڑپھوڑ نہیں کریں گے۔ شفقت محمود کا کہنا تھا کہ جس طرح مظاہرین کے حقوق ہیں، اسی طرح شہریوں کے بھی حقوق ہیں اور حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دونوں کے حقوق محفوظ رہیں۔

حکومتی ٹیم نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا کہ مولانا اپنے عہد کا پاس کریں گے اور وہ یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ اس سے پھر جائیں گے۔ اس پر میں نے انہیں کہاوت یاد دلائی کہ “بہترین کی امید رکھیں اور بدترین کے لیے تیار رہیں”، جواب میں شفقت محمود نے کہا کہ یقیناً حکومت ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ پھر کہیں گے کہ انہیں مولانا پر بھروسہ ہے۔

ملاقات میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ رینجرز، پنجاب پولیس اور ایف سی کو وفاقی دارالحکومت میں طلب کر لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اینکرز کا نکتہ نظر بھی پوچھا جس پر سب کا کہنا تھا کہ حکومت فساد سے بچنا چاہ رہی ہے جو ایک اچھی بات ہے۔

میں نے اپنی رائے دی کہ اگر مظاہرین ریڈ زون کی طرف رخ کریں یا معاہدے کی کسی قسم کی خلاف ورزی کریں تو حکومت کو معاہدے سمیت عدالتوں کا رخ کرنا چاہیئے اور تمام صورتحال بتا کر ان سے احکامات طلب کرنے چاہئیں۔

میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ مولانا کی تقاریر کو نشر کرنے کی اجازت دینی چاہیئے کیونکہ اس کے بغیر لوگوں کو کیسے معلوم ہو گا کہ اس مظاہرے میں ایک بھی خاتون موجود نہیں ہے، یا پھر یہ کہ وہ کس طرح مذہبی کارڈ استعمال کر ہے ہیں اور حکومت کو یہودی ایجنٹ اور یہودی لابی جیسے القابات سے نواز رہے ہیں؟

میرا کہنا تھا کہ نفرت انگیز تقاریر کے خلاف اس وقت ایکشن لیا جا سکتا ہے جب وہ عوام کے کانوں تک پہنچ جائیں، اسی طور پر کسی بھی قسم کے ردعمل کو عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

جلسے کے شرکاء کی تعداد کے بارے میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ بلاشبہ مولانا کو خیبرپختونخوا میں بہت حمایت حاصل ہے اور لوگوں کی اچھی خاصہ تعداد وہاں سے آنے کا امکان ہے۔

فردوس عاشق اعوان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مولانا کا آزادی مارچ نے مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلاقی نقصان پہنچایا ہے۔ بریفنگ کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ اینکرز کو کشمیر اور کرتارپور راہداری کو نہیں بھولنا چاہیئے کیونکہ دونوں ہی معاملات ملکی سلامتی کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز