روس کے ایشیائی دارالحکومت اورن برگ میں ان دنوں مختلف تہذیبوں کے رنگ بکھرے ہیں اور شہر والے سوچتے ہیں کیا وہ تاریخ کے کسی ایسی موڑ پر جاکھڑے ہوئے ہیں جس سے جنگوں اور تباہی کی شکار دنیا مسرتوں سے بھر جائے؟ حال ہی میں اس شہر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے فوجی دستوں کی میزبانی کی ہے جنھوں نے ایک کمان اور ایک ہی مقصد کے تحت ہفتے بھر فوجی مشقوں میں حصہ لیا۔ اس شہر کے گردونواح میں فوجی مشقیں کرنے والے ملکوں میں روس، چین اور وسط ایشیا کے ممالک نے تو شرکت کرنی ہی تھی، ان کے علاوہ پاکستان اور بھارت بھی موجود تھے۔ اس اجتماع میں ان دونوں ممالک کی موجودگی امن عالم کے خواہش مندوں کے لیے توجہ طلب تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی کارروائی کی وجہ سے علاقے کی 80لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ایک عظیم انسانی الیمے سے دوچا رہوگئی ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف عالمی برادری کو کشمیر کے دیرینہ مسئلے کی جانب متوجہ کردیا بلکہ پاکستان اور بھارت کے پہلے سے سرد مہری کا شکار تعلقات اپنی پست ترین سطح پر جاپہنچے جس کے سبب یہ خطرہ بھی محسوس کیا جانے لگا کہ کہیں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے یہ دونوں ملک ایک دوسرے پر حملہ آور ہی نہ ہو جائیں۔ کیا یہ محض حسن اتفاق ہے کہ باہمی کشیدگی کی اس بدترین سطح پہنچنے کے باوجود یہ دونوں ملک ایک ساتھ فوجی مشقوں میں شریک ہوئے؟ معاملے کا یہی منفرد پہلو تھا جس نے دنیا بھر کے سنجیدہ مبصرین کی توجہ اس واقعے کی جانب مبذول کردی۔ اس امید کے ساتھ کہ اگر یہ دو متحارب قومیں باہمی تعلقات کی اتنی خرابی کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو سکتی ہیں تو اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں استحکام کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔
یوں، اس واقعے پر غور کرنے اور لکھنے والوں کی تعداد کم نہیں لیکن ماسکو میں مقیم جواں سال مبصر اور محقق اینڈریو کوریبکو ان میں نمایاں ترین ہیں۔ کوریبکو نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے تفصیلی جائزے کے بعد قرار دیا ہے کہ بظاہرایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ جنوبی ایشیاکے حالات میں کوئی جوہری تبدیلی پیدا ہوسکے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں، ان کی نوعیت فلسطین میں اسرائیلی اقدامات کے مماثل ہے۔ گویا مایوسی کی ایک بنیاداور وجہ یہ بھی ہے۔ صحافی کے نزدیک اس کا دوسرا اور اہم سبب یہ ہے کہ جس طرح چین ہر معاملے میں پاکستان کا ساتھ دیتا ہے، اسی طرح روس آنکھیں بند کر کے بھارت کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت کو بھرپور روسی حمایت کی ایک وجہ ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ اسے اپنا اسلحہ بیچنا ہے، بھارت جس کا ایک بڑا خریدار ہے۔ اس تجزیے کے بعدکوریبکو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کے باوجود کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اغراض و مقاصد میں سلامتی اور سرحدی انصرام بنیادی اہمیت کے حامل ہیں لیکن پاک بھارت کشیدگی کاعلاج اس تنظیم کے پاس دکھائی نہیں دیتا۔
روس بھارت تعلقات باہمی تعاون کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعاون کا بھی ایک زمانہ گواہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ دو برس قبل روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کا دورہ ئپاکستان تقریباً طے ہوچکا تھا جو بھارتی مداخلت کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ حقیقت ہیں لیکن ان ہی برسوں کے دوران پاکستان اور روس کے تعلقات میں ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے جسے نظر انداز کردیا جائے توپورا تناظر ہی بدل جاتا ہے۔
خطے کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے تازہ امریکی عزائم کو سمجھنا ضروری ہے۔ امریکا کو افغانستان سے نکلنے کی اگرچہ جلدی ہے لیکن وہ مکمل انخلا ہرگز نہیں چاہتا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی جو بیل حال ہی میں منڈھے چڑھنے سے رہ گئی ہے، اس میں بھی وہ طالبان سے افغانستان میں اپنی موجودگی منوانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان میں امریکی اڈے برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ خطے کے بارے میں یہی امریکی منصوبہ ہے جو خطے کی سیاست کو سمجھنے کے ضمن میں کلید کا کام دیتا ہے۔ امریکا یہاں رہ کر پاکستان، چین، روس اور ایران پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔ یہ حکمت عملی ایک عظیم ا سٹریٹجک منصوبے کاحصہ ہے جس میں بھارت اس کا اتحادی ہے۔ خطے کی تمام طاقتیں بشمول روس ان معاملات کو سمجھتی ہیں، اسی لیے بھارت کے معاملے میں وہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہی ہیں۔ ان طاقتوں میں روس بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعدسلامتی کونسل کے اجلاس میں روس نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔ اسی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے میں بھی روس بھارت کا ہم نوا نہیں ہے۔ یہ بدلتے ہوئے زمینی حقائق پاک بھارت معاملات کے ضمن میں بھی مؤثر ہیں۔یہ پس منظر ہے جس میں توقع پیدا ہوگئی ہے کہ خطے کی قوتیں، خاص طور پر روس جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے قابل قدر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف خطے کا استحکام متاثر ہو گا بلکہ سارک کی طرح ایس سی او کامستقبل بھی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ روس کی سنجیدہ قیادت اس معاملے میں اپنے نہایت محدود مفاد کو ترجیح دے گی اور ٹھوس اسٹریٹیجک مفادات کو نظر انداز کردے گی۔
5 اگست کے واقعات کے بعد پاکستان اپنی خارجہ حکمت عملی از سرنو ترتیب دے رہا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ امریکی ثالثی سے اسے کیا کچھ مل سکتا ہے، لہٰذا اب اس کی توقعات کا مرکز علاقائی طاقتیں بن رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ماسکو ایس سی او کے پلیٹ فارم پر نہ سہی، خطے میں اپنی حیثیت اور اثر ورسوخ کے بل بوتے پر بہت کچھ کرسکتا ہے۔ اس لیے ماسکو کے ضمن میں ایسی مایوسی کچھ قبل از وقت ہوگی۔