پروفیسر، ڈاکٹر اور شیخ الاسلام کے مناصب ابھی تک انھوں نے نہیں سنبھالے تھے لہٰذا صرف علامہ کہلاتے تھے۔ ٹیلی ویژن پر رنگ آ چکے لیکن رنگ بازی کے آنے میں ابھی دیر تھی۔ شاید یہی سبب ہو گا کہ فہم القرآن جیسے پروگرام بہت مقبول تھے جن میں اس دیس کے سنجید ہ علما اور بزرگ نمودار ہوتے اور حکمتِ قرآن پر دانش کے موتی بکھیرتے۔ علامہ طاہرالقادری کی رونمائی بھی پہلے پہل اسی پلیٹ فارم سے ہوئی،اسی پروگرام میں انھوں نے ثابت کیا کہ وہ دوسروں سے کتنے مختلف بلکہ الگ ہیں۔
وہ مفسر، محدث اور فلسفی تو ہیں ہی لیکن اُن کی ہمہ رنگ شخصیت کی ایک کھڑکی تصوف کی بے کراں دنیا کی اور بھی کھلتی ہے۔ یہ بھلے زمانوں کی بات ہے، عالی مقام پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ ابھی حیات تھے۔ پیر مہر علی شاہؒ کے عالی دماغ چشم و چراغ پیر نصیر الدین شاہ ؒ کے دم قدم سے حمد و نعت کی محافل میں رونقیں تھیں۔ ان ہی دنوں کچھ اہلِ دل نے سوچا کہ تصوف کی دنیا کے ان تاج داروں سے کسبِ فیض کا کچھ سامان ہونا چاہئے۔ یہ خیال برگ و بار لایا اور اس موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا ڈول ڈالا گیا۔ اِس مبارک تقریب میں جہاں دیگر کو خطاب کے لیے مدعو کیا گیا، وہیں ایک دعوت نامہ انھیں بھی ارسال کر دیا گیا۔ اس خطاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ علامہ صاحب دوسروں سے مختلف ہی نہیں ممتاز بھی ہیں۔
پیر محمد کرم شاہ علیہ رحمہ جیسے بزرگ ہوں، مراکز رشدوہدایت کو آباد رکھنے والی ہستیاں ہوں یا فہم القرآن جیسی مجالس، ان میں شرکت کرنے والے تمام بزرگوں میں ایک قدر مشترک تھی، یہ لوگ جب بات کرتے تو لگتا زمانہ ٹھہر گیا ہے۔ بس، سننے والے اسی ٹھہراؤ میں بہتے چلے جاتے لیکن جب ایسے ”ٹھہرے“ ہوئے بزرگوں کی محفل میں اس نوجوان کا ظہور ہوا تو تہذیب بدل گئی۔ یوں، دوران گفتگو ہمارے پرانے بزرگ بھی کچھ ایسے منجمد نہیں ہوا کرتے تھے۔ موضوع کی مناسبت سے حرکات و سکنات دکھائی دیتیں، لہجے کا اتار چڑھاؤ سننے والوں کے دل پر اثر کرتا لیکن یہاں صورت مختلف تھی، درسِ قرآن کی محافل ہوتیں یا اہلِ تصوف کے حلقے، محسوس ہوتا جیسے کوئی بے چین روح ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ کسی نکتے کو اٹھانے کا معاملہ ہوتا یا کسی بات کی وضاحت، اُن کا کوئی ایک بازو یک بارگی یوں اٹھتا جیسے تلوار اٹھتی ہے پھر وہ اسی تیزی کے ساتھ یوں گرتا گویا کسی جسدِ ناپاک کو دونیم کرتا چلا جائے۔ اس کارزار میں زبان بھی ان کے جسم کا ساتھ دیتی۔
یہ عین ممکن ہے کہ جب انھیں اپنے حاضرین سے یہ کہنا ہو کہ اے اہلِ دل ذرا دل کے کان سے سنو تو یہ کہتے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرتے ہوئے اُن کی آواز ایسی بلند ہو کہ حلق سے نیچے اتر کر خود ان کے اپنے گلے پر اثر انداز ہونے لگے، ہاتھوں اور بازوؤں پر لرزے جیسی کیفیات طاری ہو جائیں، ممکن ہے، اس دوران کمزور دلوں پر غشی طاری ہونے لگے لیکن لہجے کا یہی جلال تو ان کی شناخت ہے۔ بزرگوں کی جس محفلِ تصوف کا ذکر تھا، اس میں جب کچھ ایسے ہی مناظر لوگوں کو دیکھنے کو ملے تو وہ پریشاں ہوئے اورکچھ سوالات نے جنم لیا۔ بزرگوں نے اس موقع پر یہ کہہ کر تسلی دی کہ پریشان نہ ہوں، یہ جوانی کا زور ہے، تجربے کی دانائی سے اس میں توازن پیدا ہوجائے گا۔
ویسے بات یہ ہے کہ ہماری روایت میں ایسی کیفیت کے لیے ایک کہاوت بڑی مقبول ہے جس کے مطابق جو آندھی زور سے چڑھتی ہے اور اچانک چڑھتی ہے، اُس کے پلٹنے اور اترنے کی رفتار بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے مگر یہاں جس آندھی کا تذکرہ ہے، ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی شدت اور حدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اللھم زد فضد، یہ خوبی جسے پروردگار دے، دے، بندے کے ہاتھ میں کیا ہے؟
علم ِ دین کی برکت نے علامہ صاحب کی دنیا بدل ڈالی تو انھوں نے سوچا کہ اس فیض سے ہما شما کیوں محروم رہیں؟ تحریکِ منہاج القرآن کے پاکستان عوامی تحریک میں بدلنے کے پس پشت یہی فلسفہ کار فرما تھا۔ عمومی طور پر کہا تو یہی جاتا ہے کہ لوگ دوسروں کی غلطیوں سے نہیں سیکھتے، اپنا سبق اپنی غلطیوں سے ہی حاصل کرتے ہیں لیکن قادری صاحب نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور بزرگوں کی غلطیو ں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی سیاست کو مذہب سے شعوری طور پر دور رکھا اور اپنی جماعت کے نام کے ساتھ کوئی مذہبی سابقہ لاحقہ لگانے سے گریز کیا۔
صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ مقبول سیاسی جماعتوں کی پیروی میں اپنی پارٹی کے اندر ثقافتی شعبہ قائم کر کے ہردل عزیز اداکار ندیم کو اس کی سربراہی بھی سونپ دی۔ اس کے بعد وہ 1990 کے انتخابات میں کودے اور کھیت رہے۔ بڑے لوگ اپنی ناکامیوں سے گھبراتے نہیں بلکہ سبق سیکھتے ہیں، انھوں نے بھی سبق سیکھا اور اعلان کیا کہ یہ سب کیا دھرا اس جہالت کا ہے جو قوم کے رگ و پے میں رچی بسی ہوئی ہے۔ پس، اب وہ سیاست نہیں کریں گے، قوم کا دامن علم کے خزانے سے بھر دیں گے۔ 2002 کے آتے آتے خبر ہوئی کہ قوم سمجھ دار ہو چکی، اب سیاست کا رخ بدلنے میں کوئی ہرج نہیں۔
یہ زمانہ جنرل پرویز مشرف کے عروج کا تھا اور وہ جنرل ضیا کی پیروی میں ریفرنڈم کی مدد سے اپنے اقتدار کو جواز بخشنے کی فکر میں تھے۔ اس کوشش میں انھوں نے جنرل صاحب کا حتی المقدور ہاتھ بٹایا، پھر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ توقع تو یہی تھی اپنی ذات کو انجمن بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے یعنی اپنی واحد نشست اور حکمراں کے التفات کی بدولت وزارت عظمیٰ کا ہما اُن کے سر پر آن بیٹھے گا لیکن یہ ہما ہی اتنا گاؤدی ثابت ہوا کہ اصل اور نقل کی پہچان نہ کر سکا۔ اس کے بعد کیا ضروری تھا کہ قادری صاحب بھی ان احمقوں کی محفل میں بیٹھے رہتے۔
بس، انھوں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، لعنت بھیج کر ایوان سے باہر آ گئے۔ اُن پریہ انکشاف پھر 2013 میں جا کر ہوا کہ اصل مسئلہ قوم کی جہالت کا نہیں، حکمرانوں کی بے راہ روی کا ہے جس کے خلاف انھوں نے اوّل دھرنا دے کر انتخاب کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ یہ نہ ہو سکا تو مایوس ہونے کے بجائے سیاست پر ریاست کی بالادستی جیسے نیک مقصد کے لیے جدوجہد شروع کی۔
اندازہ تو یہی تھا کہ یہ انقلاب حکمرانوں کے نجس وجود کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا لیکن دوران ِ دھرنا منکشف ہوا کہ قدرت ابھی تک حکمرانوں کے ساتھ ہے، لہٰذا اِ ن کی رخصتی کا وقت ابھی نہیں آیا لہٰذا یہ مرد ”کہستانی“ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتا ہوا پسپائی اختیار کر گیا۔
قوموں کی تعلیم و تربیت کا مقصد عظیم صرف تعلیم و تعلم اور مدرسوں کی خاک نشینی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ زندگی کے دیگر میدانوں کے علاوہ جنگ کے میدانوں میں بھی انجام پاتے ہیں، اس اعتبار سے آپ کے دو دھرنے کسی میدان کارزار سے کیا کم تھے؟ اسی لیے اندازہ یہ تھا کہ قوم کی جہالت اب دور ہو چکی ہو گی۔
یہی مفروضہ تھا جس کی بنیاد پر اس زمانے میں ہونے والے اِکا دُکا ضمنی انتخابات میں قسمت آزما دیکھی لیکن پتہ چلا کہ قوم تو اتنی ہی گنوار آج بھی ہے جتنی کل تھی، لہٰذا قدما کی روایت کے مطابق گوشہ نشینی اختیار کی۔ انسانی زندگی میں مراقبہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، مہاتما بدھ کو اسی کیفیت میں نروان ملا، ہمارے قادری صاحب کسی مہاتما سے کچھ کم ہیں جو روشنی سے محروم رہتے؟ آج کی روشنی سیاست سے لاتعلقی کی ہے، کل کل کی دیکھئے۔ یار زندہ صحبت باقی۔