پلس بمقابلہ سپیڈ

وفاق کی طرح پنجاب میں بھی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا۔ اس ایک سال کی کارکردگی کی حقیقت تو عوام جانتے ہیں کہ آیا ان کا پی ٹی آئی کو منتخب کرنے کا فیصلہ درست تھا یا اب انھیں اس پر پشیمانی ہو رہی ہے۔ بہرحال آج کی اس تحریر میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ اس دوران کیا کھویا اور کیا پایا۔۔

اگست 2018 میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قرعہ ایک غیرمعروف سیاست دان عثمان بزدار کے نام نکال کر سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا اور یوں شطرنج کے بڑے بڑے مہروں کو ایک پیادے نے مات دے دی۔ ابتداء میں سب کا یہی خیال اور رائے تھی کہ یہ شخص اس عہدے پر قائم نہیں رہ سکتا اور اس وقت اس بات میں وزن بھی تھا کیونکہ انہوں نے شروع میں لوگوں کو کافی مایوس کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلے پہل تو وہ میڈیا سے بات کرنے سے کتراتے تھے، حتیٰ کہ ایک بار تو یہ تک کہہ دیا کہ ابھی تربیت حاصل کر رہا ہوں۔

اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے عوام مسلسل دس سالوں یعنی 2008 سے 2018 تک میاں شہباز شریف کو بطور وزیراعلیٰ دیکھ رہے تھے جو پہلے بھی اس عہدے پر براجمان رہ چکے تھے، یہی وجہ تھی کہ سیدھے سادھے نظر آنے والے عثمان بزدار کسی کو ہضم نہیں ہو رہے تھے۔ رہی سہی کسر وزیراعظم عمران خان نے پوری کر دی جب انھوں نے نا صرف پارٹی کے اندر اور باہر سے اپنے انتخاب پر ہونے والی تنقید کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا بلکہ الٹا انھیں وسیم اکرم پلس کا نام دے کر اہل پنجاب کو ان سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرا دیں۔ اب عثمان بزدار کو اپنا آپ ثابت کرنا تھا کیونکہ جہاں ایک طرف انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا وہیں ان کا مقابلہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور اپنے پیش رو میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی تھا جو خادم اعلیٰ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو شہباز سپیڈ بھی کہلوانا پسند کرتے تھے۔

آغاز میں بیورو کریسی بھی عثمان بزدار کو بحثیت وزیراعلیٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی اور انھوں نے حتی الامکان ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی، سول سیکرٹریٹ کے دورے کے دوران باقاعدہ سازش کے تحت ایک موبائل ویڈیو کلپ وائرل کیا گیا جس میں عثمان بزدار سے یہ سوال پوچھا جا رہا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ سے تو سرکاری فائلیں بھی نہیں پڑھی جاتیں۔۔ مگر ان حالات میں بھی وزیراعلیٰ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور ان محلاتی اور بیورو کریٹک سازشوں کا مقابلہ کیا۔ ڈی پی او پاکپتن کیس میں بھی ان کے مخالفین کی امیدیں دم توڑ گئیں جب سپریم کورٹ سے انھیں ریلیف مل گیا وگرنہ سب کا خیال تھا کہ اب تو وہ پکے گئے۔ ان ماضی کے واقعات سے آپ کو پلس اور سپیڈ کا فرق بہتر طریقے سے جاننے کا موقع ملے گا۔۔

اب ذرا تھوڑی بات کر لیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف عرف شہباز سپیڈ کی ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انکا بیوروکریسی پر کافی حد تک کنٹرول رہا مگر اپنے تیسرے دوراقتدار میں جس طرح انھوں نے سرکاری بابوؤں کی باتوں میں آ کر انھیں نوازا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔۔ 56 کمپنیوں میں بیوروکریٹس کو کس طرح ڈیپوٹیشن پر لایا گیا اور لاکھوں روپے تنخواہیں دے کر عوام کا خون چوسنے کی اجازت دی گئی، آج میاں شہباز شریف اپنے دور حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کو نیب میں بھگت رہے ہیں۔ اگر ہم عثمان بزدار اور شہباز شریف کی حکومتوں کا موازنہ کریں تو سپیڈ کو پلس پر فوقیت حاصل رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا وہ اعتماد تھا جو بیوروکریسی کو ڈیل کرتے وقت وہ دکھایا کرتے تھے۔،

یہ اعتماد عثمان بزدار میں اب تک نہیں آ سکا۔ بلکہ پلس کے دور حکومت میں بیوروکریسی کہیں نظر نہیں آتی، کوئی بھی سرکاری افسر نیب اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کے خوف سے فائلوں پر دستخط کرنے کو تیار نہیں، اکثریت یا تو افسر بکار خاص بن کر صرف تنخواہ لینے کے چکر میں ہیں یا غیر فعال منصوبوں پر اپنی پوسٹنگ کرا کر جان چھڑا رہے ہیں۔ اگر کسی کو موقع ملتا ہے تووہ فیلوشپ اپلائی کر کے باہر جانے میں عافیت سمجھتا ہے۔

شہباز شریف دور میں اکثر صبح صبح ان کے مشیران خاص سلمان صوفی یا فاطمہ زیدی 180 ایچ ماڈل ٹاؤن بلا لیا کرتے تھے جہاں ہیلتھ ایجوکیشن، ویمن و دیگر سپیشل پراجیکٹس پر جہاں ڈونرز کو بریفنگ دی جاتی تھی وہیں پرمیڈیا کا بھی فیڈ بیک لیا جاتا تھا جو معنی رکھتا تھا۔ ایسی کوئی مثال مجھے تو اس پلس گورنمٹ کے ایک سال میں دکھائی نہیں دیتی۔ حتی کہ چند روز قبل بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی تو ان کا انکشاف میرے لیے کسی حیرت سے کم نہیں تھا کہ عثمان بزدار سے ملاقات اور بارہا خطوط تحریرکرنے کے باوجود تاحال ان کی وزیراعلی سے ملاقات تو دور کی بات سی ایم سیکرٹریٹ کے کسی بیوروکریٹ نے بھی رابطہ نہیں ہو سکا۔

موجودہ صورت حال کا موازنہ شہباز شریف کے دور سے کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ سپیڈ کے دور میں یہ کرتے تھے تو نا صرف شہباز شریف خود اہم معاملات پر رائے لیتے تھے بلکہ ان کا اسٹاف فیڈ بیک بھی دیتا تھا۔ بہرحال ابھی بھی معاملہ ہاتھ سے نہیں گیا ابھی تو صرف ایک سال ہی ہوا ہے اور اس ایک سال میں پلس نے اپنے آپ کو ان محلاتی سازشوں سے بچا لیا ہے جو ان کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے، باقی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مزید چار سال یہ چلیں گے یا نہیں، مگر جتنی بھی دیر حکومت رہیں انھیں یہ یاد رکھنا ہے کہ انکا موازنہ سابق دور حکومت کے ساتھ ہے جس میں ابھی تک انھیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور اسپیڈ، پلس پر بھاری ہے۔

ٹاپ اسٹوریز