میں بعض معاملات میں شدید قدامت پسند ہوں ۔۔۔ مثال کے طور پر تحاریک آزادی کی ڈٹ کر حمایت مجھے ورثے میں ملی ہے ۔ انسانی حقوق کا احترام اور جموں کشمیر پر بھارتی تسلط کی مزاحمت بھی مجھے میرے والدین نے سکھائی۔۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ بھارت کی کوئی حکومت پاکستان سے تعلقات اچھے رکھنا چاہے گی اور کوئی خراب ۔۔۔ لیکن مسلہ کشمیر کے حل کی طرف کوئی عملی قدم کبھی نہیں اٹھائے گی۔
بھارتی دانشور اور ” لبرل ” بھی زبردست لوگ ہیں۔ جامعہ ملیہ دلی میں ایک سمینار کے دوران پاکستان پر زبردست حملے ہو ر ہے تھے کہ استصواب رائے کا مطالبہ محض فراڈ ہے۔ میری باری آئی تو میں نے عرض کی کہ ہم سے خفا کیوں ہوتے ہو۔ چاچا نہرو کی سمادھی پر جا کر جوتم پیزار کرو۔ جموں و کشمیر میں جنگ بندی اور استصواب رائے کا مطالبہ ایک قرارداد کی شکل میں نہرو ہی نے کیا تھا۔۔۔۔۔
ایک سوال آیا کہ پاکستانی جموں و کشمیر کو مقبوضہ کیوں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔عرض کی کہ دنیا کا سارا میڈ یا جموں کشمیر کو ” بھارتی زیر کنٹرول ” کہتی ہے تو میرا کیا قصور ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ مقبوضہ کشمیر نا کہیں ۔۔۔۔ آپ کا کشمیر بھی تو مقبوضہ ہے ۔۔۔۔۔ بس میں نے سینہ پھلا لیا ۔۔ وہ خود پھنس گئے تھے۔ میرے بہت اچھے دوست تھے میں ان کو چیلینج نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اب للکار ضروری تھی۔
” سجنو ! ” میں نے دست بستہ کہا ” میں آپ کے مطالبے کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ میں آزاد کشمیر کو مقبوضہ یا پاکستانی زیر انتظام کہنے کے لئے تیار ہوں، بس آپ بھی آج ہی سے بھارتی زیر قبضہ کشمیر کو مقبوضہ کہہ سکیں۔۔۔”
پہلے سناٹا چھا گیا، پھر ایک بہت سینئر پروفیسر نے مسئلےکا حل نکالا۔۔” ہم حقائق سے نظریں نہیں چرا سکتے۔ جب تک دونوں ملک مسلہ حل نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ اصطلاحات بھی برقرار رہیں گی۔”
میں اس وقت بھی یہ کہتا تھا کہ کراچی کی بے امنی میں بھا رت کا ہاتھ ہے۔ اب بھی کہتا ہوں کہ بلوچستان میں 4 اور افغان علاقے سے حملے میں 6 پاکستانی فوجیوں کی شہادت بھی بھارت ہی کی کارستانی ہے۔۔۔ وہ پہلے بھی یہ کرتا ریا ہے۔ اس کی پوری فائل وزیر اعظم گیلانی نے مصر کے خوبصورت علاقے شرم الشیخ میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو پیش کی تھی۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھارت جا کر اس ہر بات کریں گے لیکن بلوچستان تو کیا سیاچن اور سر کریک کے طے شدہ معاہدے پر منموہن عمل نا کرا سکے۔
تو ہمیں کسی بھی طرح اپنے گھوڑوں کی نعلیں نئی رکھنی ہیں ۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا کہ بے نظیر پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنا چاہتی ہیں۔ اسی زمانے میں سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری ملاقات ہو گئی ۔۔۔۔ میں نے ان سے پوچھ ہی لیا ۔۔۔ کہنے لگے ہم تو ایٹم بم لے جانے کا راکٹ بنا رہے ہیں ۔۔۔۔۔”
میں سعودی عرب کے اخبار میں تھا۔ میں نے خبر دی ۔۔۔ ہماری خبر ایک سسٹم کے تحت 12 دوسرے اخباروں کو بھی جاتی تھی ۔۔۔۔ یہ نیوز پیپرز گروپ تھا ۔۔۔ میری خبر بہت سادہ تھی ” پاکستان نے ایٹمی میزائل تیار کر لئے”
یہ خبر کئی عربی اخباروں میں بھی لیڈ یا نمایاں لگی۔
تو آج جب حالات وہی ہیں۔ بھارتی پالیسی پہلے سے بھی خراب ہے۔ مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش، چین کی طرف سے حمایت، ایف16 طیاروں کے پرزوں کے لئے امریکی فنڈز کی بحالی، افغان امن عمل سے بھارت کا اخراج، امن عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار ۔۔۔۔ ترک پاکستان ملائشیا اسٹریٹجک کونسل کے اجلاس کی طلبی ۔۔۔ سب ہی بھارت کے لئے تباہ کن ہیں لہذا اس سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ایک صاحب نے کہا ہم اس پر تیار ہوگئے ہیں کہ اگر بھارت اپنا ایٹمی پروگرام ختم کردے تو ہم بھی کردیں گے۔ میں نے سوشل میڈیا پر ان کو جواب بھیج دیا ۔۔ آج کا کالم اسی اقتباس پر ختم کرتا ہوں ۔۔۔۔ یہ ہے ایٹمی پروگرام کے لیے پاکستانی نظریہ ۔۔۔۔۔
ایٹمی پروگرام اس لئے نہیں تھا کہ بھارت نے ایٹم بم بنایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان بھارت کی روایتی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد یہ سوچا گیا کہ اگر بھارت نے آئندہ یہ حرکت کی تو کیا ہوگا تب ایک تاریخی عہد کیا گیا کہ ہمیں اس ارادے سے ایٹم بم بنانا ہے کہ اگر کبھی بھارت نے پھر پاکستان بذریعہ قوت توڑنے کی کوشش کی تو اسے استعمال کیا جائے گا۔ اسے حفاظتی ڈھال کا نام دیا گیا۔
امریکہ نے ایٹمی پروگرام کی خوف ناک حد تک مخالفت کی جس کی اس سے توقع بھی تھی۔ پاکستان پر شدید پابندیاں لگا دی گئیں۔ ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے سامان کی یہ دیکھنے کے لئے بھی تلاشی ہوتی تھی کہ کوئی ایسی چیز نا نکل جائے جو ایٹمی پروگرام میں استعمال ہو۔ بال بیئرنگ اسٹیل کے ہیئر برش تک ضبط کر لئے گئے، لیکن پروگرام جاری رہا۔
نا جانے کتنے گمنام ہیرو خاموشی سے شہید ہو گئے۔ ایک کو کسنجر دھمکی دے گیا تو اسے بھی پھانسی ہو گئی لیکن غلام اسحاق خان نے ایٹمی پروگرام کی نگرانی سنبھالی جو پھانسی کے بعد فوج نے لے لیا تھا۔ پاکستان کے ہر حکمران نے اس پروگرام کو آگے بڑھایا۔
بھا رت نے ایٹمی ہتھیاروں کے پوکھران میں دھماکے کئے تو میں سعودی عرب میں ایک اخبار کا ایڈیٹر نیوز تھا۔ پاکستان واپسی کے لئے ایک مہینے کا نوٹس دے چکا تھا۔ ایک تقریب تھی جس میں شاہی خاندان کے لوگ بھی موجود تھے اور سعودی عرب کے بہترین دماغ بھی۔ وہاں یہی بات زیر بحث تھی کہ واجپائی اور ایڈوانی کے بیانات جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان اب ایٹمی دھماکے کر ہی دے۔
اس بحث میں جائے بغیر کہ میاں نواز شریف کیا چاہتے تھے، پاکستان نے چاغی میں یکے بعد دیگرے 5 ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی قدم اکھاڑ دیئے۔ پیارے ایڈوانی جی چپ ہو گئے اور وزیر اعظم واجپائی نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دینے کے لئے وادی کشمیر میں ایک جلسہ کا انتخاب کیا، یہیں انہوں نے ایل او سی پر یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔
پاکستان کے ایٹمی گولے بم اور میزائل تین بار بھارت کو مکمل حملے سے باز رکھ چکے ہیں اور بھارت ہر بار ثالثی کے لئے امریکہ کی طرف بھاگا ہے ۔
آخری بار فروری 2019 کی وہ رات تھی جب بھارتی طیارے اور ایٹمی میزائل تیار تھے لیکن پھر جب پاکستان نے اپنے ” اثاثے” سرحد کے قریب منتقل کر دیے تو مائک پومپیو پھر فعال ہوئے اور بھارت سے کہا کہ وہ باز رہے کیوں کہ پاکستان چھوڑے گا نہیں۔
مقصد صرف یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام حملے کے لئے نہیں پاکستان کی سلامتی کے لئے ہے ۔ اس پر چند ایک کو چھوڑ کر کس پاکستانی کو اعتراض ہے؟