بیمار حکمران

شاد بات

پاکستان چھوڑے ہوئے کم و بیش 40 سال ہو گئے لیکن ’’دل دل پاکستان‘‘ رہا اور بقول چچا غالب ’’تیرے خیال سے غافل نہیں رہا‘‘ ستم ہائے روزگار بھی یہی کچھ تھا کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھتے رہنا، پھر اس پر ایک رائے قائم کرنا اور اس رائے کو لکھنا یا بیان کرنا۔ نیویارک میں ضیا مخالف رسالے نکالنا، چھاپنا یا بانٹنا ہو، کویت میں اردو اخبار کی ایڈیٹری، سڈنی میں ریڈیو کی اردو سروس کی ملازمت یا دبئی اور آسٹریلیا میں ڈان کی نمائندگی، پاکستان کے پل پل کی خبر رکھنا ذریعہ روزگار بنا رہا۔

پاکستان سے باہر رہنے والوں کو پاکستان کا اسکائی ویو ’’ہوائی منظر‘‘ پاکستان کے اندر رہنے والوں کے مقابلے میں شاید زیادہ صاف نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میری آنکھ میں ’’فش لینس‘‘ لگ گیا ہے۔ اکثر چہرے بہت بد نما نظر آتے ہیں۔ میں نے جو ناول لکھے وہ بھی اسی ’’فش لینس‘‘ سے نظر آنے والے چہروں کی کہانیاں ہیں۔ خبر سازی سے ناول نگاری تک سب کچھ ایک سا لگتا ہے۔

میں سال میں کم از کم ایک بار پاکستان ضرور آتا ہوں اور جب واپس جاتا ہوں تو آسٹریلیا میں رہنے والے دوست مجھے پاکستان کا ابن بطوطہ جان کر پوچھتے ہیں ’’ آج کل پاکستان کے حالات کیسے ہیں ؟‘‘ میں انہیں بہت آسان سا جواب دیتا ہوں کہ آج کل پاکستان کے وہی حالات ہیں جیسے آج سے ایک سال پہلے، پانچ سال پہلے یا دس، بیس اور پچاس سال پہلے تھے۔ یہ میرے جواب سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ان کی حب الوطنی کو یہ تسکین حاصل ہو جاتی ہے کہ چلو پہلے جیسے ہی ہیں اور زیادہ خراب نہیں ہوئے۔

میں یہ سب کچھ ٹالنے کے لیے نہیں کہتا بلکہ یقین بھی رکھتا ہوں۔ حکومت میں آنے والے ہر سیاست دان سے یہی سنا ہے کہ آج کل ملک شدید بحران کا شکار ہے جس کے لیے قوم کو متحد رہنے کی ضرورت ہے لیکن حکومت سے نکلتے ہی انہیں جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔ ویسے ہم باہر رہنے والے جمہوریت کے خطرے کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں خاص طور پر وہ دوست جو میری طرح اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں سچ مچ کی جمہوریت رائج ہے۔ انہیں پاکستان حکومت ایک ایسا بدنما پرندہ نظر آٹی ہے جو اڑنا نہیں صرف چگنا جانتی ہے۔

پاکستانی جمہوریت کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ عموماً اسپتالوں میں یا پاکستان سے باہر جاکر پروان چڑھتی ہے۔ پرانی باتیں جانے دیجیے آج کل کی بات کیجیے۔ ہر گرفتار ہونے والا سیاستدان اسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں ہے اور اجازت مل جائے تو لندن کی سڑکوں پر جاگنگ کرتا ہوا اپنے بلڈ پریشر اور شوگر کا علاج کر رہا ہے۔ نواز شریف کے بارے میں ان کی جانشین بیٹی نے ایسے دل دہلانے والے بیان دیے تھے کہ لگتا تھا میاں صاحب آج گئے کل گئے اور ہم جیسے پتھر دل بھی موم ہو گئے تھے۔

شہباز شریف کی کمر میں اتنی تکلیف ہے کہ کھڑے نہیں ہو سکتے اور ہر مہینے دو مہینوں میں انہیں علاج کے لیے لندن جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھے خاصے ہٹے کٹے رانا ثنا اللہ جیل گئے تو دوسرے دن ہی ان کی بیگم نے خبردار کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ زرداری صاحب تو اسپتالوں میں رہنے کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر شاہد خاقان عباسی صاحب کی بیماری کے ٹکرز چلتے ہوئے نظر آئے۔ میرا خیال تھا کہ عباسی صاحب اپنے ہم عصر سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہیں لیکن جیل جاتے ہی ان کی پوشیدہ بیماریوں طشت ازبام ہونے لگی ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ بیماریوں زندہ رہنے کا جرمانہ ہیں۔ ہم جیسے چھوٹے موٹے بے نام لوگ بھی دل اور شوگر جیسے عارضے جان سے لگائے رکھتے ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے تمام بیمار سیاستدان دوبارہ پاکستان کی قیادت اور حکمرانی کرنے اور کمر پکڑ کر پاکستان کی گاڑی کو دھکے دے کر ترقی کی شاہراہ پر چلانے کا عزم رکھتے ہیں۔ پاکستان ایک بیمار ملک ہے اسے چلانے کے لیے بیمار نہیں صحت مند اور تازہ دم لوگوں کی ضرورت ہے۔ دوست ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ جسمانی بیماریاں اکثر دماغی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، کم از کم فیصلے کرنے کی صلاحیت کمزور کر دیتی ہیں۔

دنیا کی تاریخ حکمرانوں کی بیماریوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں اپنے وقت کے کئی طاقت ور رہنما ایسے تھے جو اپنی بیماریوں کو اس لیے چھپاتے تھے کہ اس کا اثر ملک پر اچھا نہیں پڑے گا لیکن کئی ایسے رہنما بھی ہیں جو دور حکمرانی ہی میں اپنے عوام کو اپنی بیماری کے بارے میں اعتماد میں لیتے تھے اور اکثر حکمرانی چھوڑ بھی دیتے تھے۔ اسپین کے مرد آہن فرانکو مشینوں کے ذریعے زندہ رہ کر بھی اپنے عہدے پر قائم تھے۔ سب سے دلچسپ کیس پرتگال کے مرد آہن سلازار کا ہے وہ گر کر بری طرح زخمی ہو گئے تھے اور ان کی جگہ نیا حکمران منتخب کر لیا گیا تھا لیکن سلازار دو سال تک بستر علالت پر رہے اور انہیں یہی باور کرایا جاتا رہا کہ ان کی حکمرانی قائم ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو دل کا عارضہ ہوا تو انہوں نے قوم کو اعتماد میں لیا اور اس کے تین سال بعد 51 سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ چھوڑ دی۔ ان کے بعد وزیر اعظم بننے والے گورڈن براؤن نے ٹی وی پر آکر بتایا کہ ان کی آنکھیں خراب ہیں اور یہ بھی امکان ہے کہ وہ اپنی بینائی مکمل طور پر کھو دیں لیکن وہ بھی مکمل اندھا ہونے سے کافی پہلے جب ان کی عمر 60 سال سے بھی کم تھی مستعفیٰ ہو گئے۔ ہیرالڈ ولسن اور چرچل بھی اپنی اپنی حکمرانی کے ادوار میں عارضہ قلب، ایلزائمر کے مریض رہے انہیں نمونیہ بھی ہوا اور اسٹروک بھی لیکن چرچل زیادہ ضدی تھے جو اسٹروک کے باوجود کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے رہے۔ حالیہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے ذیابیطس کی مریض ہیں اور دن میں چار بار انسولین کے انجکشن لیتی ہیں۔ وہ بھی اب اپنی بیماری پر زیادہ توجہ دے سکیں گی۔

امریکہ کے بیمار صدور کی تاریخ زیادہ طویل ہے۔ روزویلٹ کے بعد کینیڈی اور ریگن جیسے مشہور صدر بھی اپنی حکمرانی کے دوران خطرناک بیماریوں میں مبتلا تھے لیکن ریاست کے مفاد میں ان کی بیماریاں چھپائی گئیں۔ فرانس کے صدر فرانسو متراں بھی اپنے دوسرے دور صدارت میں بیمار تھے لیکن جب تک ان کی صدارت کی مدت ختم نہیں ہوئی خاموشی اختیار کی گئی جس کے ایک سال بعد وہ آنجہانی ہو گئے۔

دلچسپ کیس ہم جیسے ایک ملک نائیجیریا کے محمد بہاری کا ہے جن کی ایک ٹانگ لندن کے اسپتال میں رہتی تھی لیکن وہ دوسری ٹانگ کرسی صدارت سے ہٹانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پاکستان کے سب سے مشہور بیمار حکمران گورنر جنرل غلام محمد رہے ہیں جو اپنے بستر یا زمین پر لیٹے لیٹے گالیاں بکتے ہوئے احکامات جاری کرتے تھے۔ اسکندر مرزا بمشکل انہیں ہٹانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ٹاپ اسٹوریز