ہندی میں وانی کا مطلب ہے ” آواز ” ۔۔۔ میں یہاں وانی کو آواز ہی کے معنی میں لوں گا ۔۔۔ تو برہان وانی واقعی تلوار کی آواز تھا ۔۔۔” شائیں کی وہ آواز جس سے دشمن دہل جاتے تھے ۔۔ وہ عظیم کشمیری مجاہدین اشرف ڈار، اشفاق مجید وانی کا چاہنے والا تھا اور اس نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ کاش میری شہادت کشمیری جدوجہد کی کام یاب تکمیل کا آخری باب ہو ۔۔۔۔
وہ اگر مجھ سے یہ کہتا تو میں اس سے کہتا ” کشمیر کے وانی ۔۔۔۔ تم نئے شہیدوں کی پہلی صف میں آگے چل رہے ہو‘‘
میں اس میں تیجن شاہ دیکھتا تھا، مجھے وہ مقبول بٹ کا پرتو نظر آتا تھا ۔۔۔اشرف ڈارشہید اور اشفاق وانی شہید کے قہقہے اس میں سنائی دیتے تھے۔۔۔۔۔ وہ سری نگر ہی نہیں جموں میں بھی مقبول تھا، جب اسے عملی جدوجہد سے وقت ملتا تو وہ سوشل میڈیا سے ہر طرف خوش کی نئی نئی لہریں پیدا کر دیتا تھا ۔۔۔
وانی نے کم عمری میں کمان سنبھال لی تھی ۔۔عسکری علاقے کی سیاسی کمان اور سوشل میڈیا کی بھی ۔ کئی بار دلی دربار کے اعلی حکام کو براہ راست سرینگر سے کہنا پڑا کہ بند کرو یہ فیس بک واٹس آپ ۔۔۔۔جہنم میں گیا سب ۔۔۔۔۔
ایک بار شجاعت بخاری شہید سے گفتگو ہو رہی تھی ۔ شاید وہ اقوام متحدہ کی کشمیر رپورٹ کے سلسلے میں امارات میں تھے ۔۔۔ میں نے پوچھا کہ یہ برہان وانی کہاں سے آیا ۔۔ اور چھا گیا ۔ کہنے لگے ” ترال کا ہے ۔۔ والدہ اور والد ٹیچر ہیں ۔۔۔ بھارتی فوج نے جب اس کے دوست کو ذلیل کیا، بھائی پر تشدد کیا تو صرف کرکٹ کھیلنے والے برہان مظفر وانی نے جہادیوں کا راستہ اختیار کر لیا ۔۔۔۔۔وہ جلد ہی سری نگر آ گیا اور مرکزی تنظیم میں شامل ہو گیا۔
ہرہان وانی علی گیلانی کے بہت قریب تھا۔ ان کی بات غور سے سنتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس کا غصہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوا اور وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگا۔ یہ مرحلہ اس کی نظریاتی تربیت کا تھا لیکن سب کو پتہ تھا وہ جلدی میں ہے۔ اس کی پیشانی پر شہیدوں کی چمک نظر آتی تھی۔
برہان وانی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جب کشمیری عوام میں اس سے محبت بڑھ گئی تو اس نے اپنی نوعیت کا پہلا ویڈیو پیغام جاری کیا ۔۔۔۔۔
” اےلوگو۔۔۔ کب تک ظلم برداشت کرو گے ۔ چلو آؤ ۔۔۔۔ میری طرح تحریک میں شامل ہو جاؤ ”
بہت جلد لوگ تحریک میں شامل ہونے لگے ۔۔۔ برہان برہان کے نعرے اب وادی سے جموں تک پھیل چکے تھے ۔۔۔ لوگ کہتے تھے وہ زندہ رہنے کا سبق اور شہادت کا جذبہ دیتا ہے۔ اس کی تقاریر لوگوں کے دل گرما دیتی تھیں۔
وانی کے کارنامے ہر طرف تھے۔ سری نگر ہو یا پلوامہ سب ہی اس کے علاقے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے اس کی شہادت کے بعد سب سے زیادہ ظلم شوپیاں اور پلوامہ میں ہوا۔
وانی کو جب بھی اپنی سرگرمیوں سے وقت ملتا وہ اپنے گھر دادسرہ کے جنگلات چلا جاتا تھا یہاں ہزار قسم کے پھول اور پھل تھے۔ خوشبو سے لدی بیلیں، سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی درختوں کی آخری شاخ تک پہنچ کر دوسرے درخت سے لپیٹنے چکی جاتی تھی۔
داد سرہ ایک جھیل کا نام ہے۔ داد کے معنی گہری اور سرہ کا مطلب پانی ہے۔ یہ جھیل بہت گہری اور قدرتی ہے۔ وہ اس کے کنارے لیٹ کر پہاڑوں کو دیکھتا رہتا تھا ۔۔۔۔
پھر طویل سانس لے کر اٹھتا اور لیپ ٹاپ کھول کر کچھ لکھنے لگتا ۔۔۔۔
اگلے روز وہی پوسٹ ٹاپ ٹرینڈ بن جاتی تھی۔
بس یہی جگہ تھی۔ 8 جولائی 2016 برہان مظفر وانی اپنے دوستوں سرتاج شیخ اور پرویز لاکھانی کے ساتھ ترال کے اسی علاقے میں تھا ۔۔۔۔۔کہ ہر طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ایسی فائرنگ اس علاقے میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
راشٹریہ رائفل 19 کے سو ” سورما” 15 منٹ تک مستقل فائر کرتے رہے ۔۔۔ پھر فائر رکا ۔۔۔ ہر طرف سناٹا تھا ۔ پرندے تک سہم گئے تھے۔ راشٹریہ رائفل کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس کو قتل کر آئے ہیں۔
یہ تیسرا سال ہے لیکن وانی نے جو راستہ منتخب کیا تھا ۔۔۔۔وہ اب مستقل گزر گاہ بن گیا ہے۔
یہ بھی مشہور ہے کہ راشٹریہ رائفل کے ہیڈ کوارٹر میں جب یہ بتایا گیا کہ یہ برہان مظفر وانی کی لاش ہے تو فوجی ایک پل کو گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔
چاند کو گل کرو تو ہم جانیں ۔۔۔۔۔۔۔
وانی کی شہادت کے بعد اب تک 2 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں، 16000 پیلٹ گنز کا شکار ہوئے ہیں۔ بھارتی فوج کا نقصان بے پناہ ہے 500 فوجی مرچکے۔ 1000 زخمی ہیں اور فوج سے فرار کی شرح بڑھ گئی ہے۔
وانی کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگ تھے اور نمازجنازہ 8 بار ہوئی۔۔۔۔
بھا رت نے کشمیر میں اب قتل عام کی پالسی اختیار کی ہے۔ ہر صبح آپریشن کے بہانے 4 سے 10 لوگوں کا قتل ہو رہا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق حقائق چھپائے جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ”فورسز کی بھاری تعداد کے استعمال اور اس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق کسی بھی تازہ تحقیقات سے متعلق کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ 2016ء میں ماورائے عدالت قتل سے متعلق شروع کی گئی پانچ تحقیقات کی موجودہ حالت سے متعلق بھی کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ متنازع جموں و کشمیر نے 2017ء میں سویلین ہلاکتوں سے متعلق ایک بھی تفتیش شروع نہیں کی، نہ ہی کوئی استغاثہ قائم کیا گیا۔ یہ بھی نہیں ہوا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کو مجمع کنٹرول کرنے کے طریقہ کار یا قوانین میں کوئی تبدیلی کرنے کا کہا گیا ہو۔“