حقائق پر حاوی رائے

یہ کا فی عرصہ پہلے ہی واضح ہو گیا تھا کہ سوشل میڈیا نے خبر تک رسائی پر روایتی میڈیا کی اجاراداری ختم کر دی ہے۔ شر وع میں کچھ صحافیوں اور صحافتی اداروں نے اس کے خلا ف مزاحمت بھی کی لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بڑ ے صحافتی اداروں کے نیوز ایجنڈے تعین اکثرسوشل میڈیا کرتا ہے۔

سی این این اور بی بی سی جیسے ادارے سوشل میڈیا پر بریک ہو نے والی خبر کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح خبر شام سے ہو،ایران سے یا دنیا کے کسی اور ملک سے، اکثرمشاہدے میں آیا ہے کہ ان بین الا قوامی نیوز چینلز کے خبر ناموں کا آغاز سوشل میڈیا پراپ لوڈ کی گئی ویڈیوزسے ہوتا ہے۔

خبرکو رپورٹ کرنے یا نہ کر نے کی جو طا قت صحافتی اداروں کو حاصل تھی اب ناصرف وہ سوشل میڈیا نے ختم کردی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سوشل میڈیا نے پانسہ ہی پلٹ دیا ہے۔ صحا فت اب مشغلہ بن گیا ہے آج کے ڈیجٹیل دور میں ہر شہری صحافی ،لکھاری اورتجزیہ کار ہے اور یہ سب سوشل میڈیا کی وجہ سے ممکن ہورہا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر بہت سے اعتراضا ت سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسے افواہو ں اور جھوٹی خبروں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جبکہ سیاسی لیڈر ہوں یا کوئی میڈیا اینکر، سوشل میڈیا پر ہم نے سب کو نشانہ بنتے دیکھا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی میڈیا نے تو بہت تیزی سے ترقی کی اورمیڈیا قوانین اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ ایک ایسا ملک جہا ں میڈیا ریگولیشن پر شازونادر ہی عمل درآمد ہو تا ہے اور میڈیا ایتھکس یعنی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا جاتا ہو، وہا ں اکثراوقات ہمیں مین اسٹریم میڈیا کے احتساب کی ذمہ داری سوشل میڈیا اپنے کندھوں پر اٹھائے نظر آتا ہے۔

اپنی تما م تر کمزوریو ں کے باوجو د سوشل میڈیا کو یہ کریڈٹ جا تا ہے کہ اس نے ہم صحافیوں کو آئینہ دکھایا، ہمارے کام میں غلطیو ں کوسامنا لے کے آیا، سوشل میڈیا ہی نے ہمارے تعصبات کو بے نقاب کیا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ ہم کچھ بھی لکھ دیں یا بول دیں اورکوئی پوچھے نہ، عوامی میڈیا ہم سے ہر بات کا جواب مانگتا ہے۔

مجھے یاد ہے آج سے تقر بیا 18 برس قبل جب میں  تعطیلات پر پاکستان آیا تو سب سے پہلے جا کر اخبار خریدا تا کہ اپنے پسندیدہ کالم نگار کو پڑھا جاسکے، بیرون ملک ہونے کی وجہ سے میں انہیں دو سال سے پڑھ نہیں سکا تھا۔

ملک کے صف اول کے صحافی اور میرے پسند ید ہ کالم نگار نے اپنے کالم میں حکومت وقت کو آڑے  ہاتھوں لیتے ہو ئے لکھا تھا کہ گزشتہ کئی دہا ئیوں سے برطانیہ میں بنیا دی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں اضا فہ نہیں ہوا،حقائق کے برعکس ان کی اس رائے کی وجہ سے میں نے اس دن کے بعد سے ان کو پڑھنا چھوڑدیا لیکن انہوں نے اپنی کامیابیوں کا سفر جاری رکھا اور اخبار کی ساتھ اب ٹی وی دیکھنے والے بھی ان کے علم و دانش سے مستعفید ہو رہے ہیں۔

اب فرق صرف اتنا ہے کہ ڈیجیٹل اس دور میں معلومات، علم اور رائے کا بہاؤ یک طرفہ نہیں ہے، عوام ہمارے کام پر سوالات بھی اٹھاتے ہیں اور بھرپور رائے بھی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نام ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے سوالات  پر وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں اگر ہم صحافی کسی کو مجرم یا پارسا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سوشل میڈیا ہم سے ثبوت مانگتا ہے اور ثبوت نہ پیش کرسکنے کی صورت میں تنقید کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم الف لیلیٰ کی کہانیاں سنا کر ملک کی سیاست پریا کوہ قاف کے سب سے بڑے جن کے  بیٹے کی پریوں کی رانی کی منجلی بیٹی سے شادی کا واقعہ سنا کر آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات اور ملکی قرضے میں اضافے پر اپنی ماہرانہ رائے دیں گے  تو پھر سوشل میڈیا ہمارا محاسبہ بھی کرے گا  اور ہمارے بارے میں رائے بھی دے گا۔

بہت سے صحا فی بھا ئی گلہ کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا شریفوں کی پگڑیاں اچھالنے کا ذریعہ بن گیا ہے، ہر کوئی سوشل میڈیا پر تجزیہ کار بنا ہوا ہے اور ہر معاملے پر حقائق کے برعکس غیر ذمہ درانہ رائے دے دی جاتی ہے۔

اس گلے گا جواب نہایت احترام کے ساتھ یہ عرض ہے کہ حالیہ برسوں میں رائے کو حقائق پر ترجیح دینے کا رواج ہم صحافیو ں نے ہی پختہ کیا ہے۔ ہم  میڈیا پر بیٹھ کر جو کچھ بوتے رہے ہیں آج سوشل میڈیا پر اس کی فصل تیار ہوگئی ہے۔

آج سے تقریباً سو برس قبل معروف برطانوی صحافی “سی پی اسکاٹ” نے  صحافت سے متعلق ایک مضمون لکھا تھا، جسے آج بھی مغرب کی یونیورسٹیوں میں صحافت کی اعلیٰ تعلیم  حاصل کرنے والوں کو پڑھایا جاتا ہے، نصف صدی سے زائد عرصے تک  گارڈین اخبار کے ایڈیٹر رہنے والے سی پی اسکاٹ نے اس مضمون میں صحافیوں  کو رائے کو حقائق پر فوقیت دینے کے حوالے سے  کچھ اس طرح خبردار کیا تھا۔

“Comment is free, but facts are sacred”. CP Scott 1921”

ٹاپ اسٹوریز