آب وہوا


(مقبول مرزا) دریا تو مشکل سے بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔نظر آئیں بھی تو ان میں اتنا پانی نہیں ہوتا کہ اس میں خوبصورت کشتیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔

دریائوں کا پانی کہاں رہ گیا !جبکہ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے پہاڑوں پر برف پگھل رہی ہے پھر پانی کیا گرمی کی وجہ سے ہوا میں واپس اڑ جاتا ہے؟اور صرف برسات کے موسم میں ہی کبھی دریائوں کو بھرتا اور کبھی کنارے بھی توڑ دیتا، سیلاب بن جاتا ہے۔

صنعتی ترقی کے بعد اور عظیم ایجادات کے عوض انسان نے بہت قیمت ادا کی اور اپنے ماحول کو قدرتی نہیں رہنے دیا۔دنیا کے بڑے صنعتی ممالک بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ممالک جہاں صنعت نے جنم لیا وہاں کے آسمان پر اب ستارے ویسے ہی چمکتے د مکتے نظر آتے ہیں ۔جیسے پاکستان میں کاغان ، سکردو اور باقی شمالی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔

گہرا نیلا آسمان اور چمکتے ستارے دیکھ کر سیر حاصل خیالات سوچنا اور کوئی آرٹ تخلیق کرنا شاید ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ کیونکہ انسانوں کی زندگی میں سب سے بڑا مسئلہ زندگی تو رہا ہی نہیں ۔آب و ہوا زندگی ہے اور پھر باقی سب،مگر معشیت کے گہرے بنھور میں اٹکے ہم سب زندہ ہونے اور رہنے کا جواز قدرت کو سمجھتے ہی نہیں۔

دریا کا پانی گدلہ ہو تو سمجھ میں آتا ہے کہ زمین کی مٹی کا رنگ ہے مگر دریا میں پانی ہی نہ ہو تو اس کو دریا کون کہے۔ایک فلسفی نے کہا تھا کہ

” زمین کا پھل ہر انسان کی ملکیت ہے مگر زمین کسی کی ملکیت نہیں” یہ بات مگر فلسفے کی فلسفے تک ہی رہی اصل میں تو پھر ملکوں،علاقوں اور ریاستوں نے وسائل پر قبضے کی جنگ کو اس طرح جاری و ساری رکھا کہ طاقتور کو جہاں موقع ملا اس نے کمزور کا پھل بھی کھا لیا اور پانی بھی روک لیا ۔ کہیں پانی روک کے ڈیم بنا پھر بجلی بنی پانی کم ہوا تو تیل اور گیس جلنے لگے پھر اور بجلی بنی اور یوں توانائی کے سمندر پی کر بھی انسان کی پیاس ہے کہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔

راوی کی کہانی پرانے لوگوں اور قصوں میں پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ راوی پہلے شاہی قلعے کی دیواروں تک بہتا تھا ۔پھر کب دریا کے کنارے سکڑتے گئے اور وہاں تعمیرات نے دریا کو کوزے بند کر دیا ۔

دریائوں کی تو ایک رہی اب دنیا میں بہت سی جگہوں خاص طور پر عرب دنیا میں سمندر کو کنکریٹ سے بھر بھر کے جزیرے اور ان پر بلند عمارتیں بنتی جاتی ہیں ۔شاید انسان کو قدرت سے گلہ ہے کہ زمین پر ستر فیصدپانی کیوں ہے خشکی زیا دہ ہونی چاہیے تھی تاکہ زمین زیادہ ہو

یورپ میں خاص طور پر ماحولیاتی آلودگی پہ گہری نظر رکھی جاتی ہے اور تعمیرات میں بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ شہروں کی Sceneryمیں فرق نہ آئے Electric گاڑیوں میں روز بروز اضافے سے فضا کی آلودگی میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے ترجیح یہ ہے کہ انسان صاف ستھری آب و ہوا میں سانس لے سکیں ۔ہمارے ملک میں شہروں اور دیہاتوں میں حکومتی اقدامات جتنے بھی سخت ہوں شاید فضائی آلودگی میں بہت زیادہ فرق نہیں ڈال سکیں گے۔فرق تب ہی نظر آئے گا جب ایک عام انسان ایک شہری کو یہ شعور آئے گا کہ ا س نے اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے آب و ہوا کو صاف اور صحت مند رکھنا ہے ۔

اب ایک عام انسان کون ہے؟

قدرتی ماحول کیلئے ایک فیکٹری کا مالک جس کی فیکٹری کی چمنیوں سے آلودگی سے بھرپور دھواں نکلتا ہے۔وہ ایک عام آدمی ہے, ایک دیہاتی کسان ایک موٹر سائیکل چلانے والا ہر کوئی جو قدرتی ماحول کوبچانے اور بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے وہ ایک عام انسان ہے۔

ایک سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ جانور اس سارے قصے میں معصوم ہیں اور کسی حد تک مظلوم بھی حد تو یہ ہے کہ انسان نے چڑیا ں تک کھا لیں کہ اب نظر ہی نہیں آتیں۔


متعلقہ خبریں